صدر ٹرمپ نے عالمی بنک کا اگلا صدر بننے کے لیے محکمہ خزانہ کے اعلٰی عہدیدار ڈیوڈ میلپاس کو نامزد کیا ہے تاکہ وہ غریب ترین لوگوں کی مدد کرنے کے لیے کیے جانے والے بنک کے ٹھوس کام کو آگے بڑہانا جاری رکھیں۔
62 سالہ میلپاس ایک بین الاقوامی معیشت دان ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں میں اصلاحات لانے کی امریکی کاوشوں میں وہ پہلے ہی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
صدر نے 7 فروری کو وائٹ ہاؤس میں میلپاس کی احتساب کے لیے ایک ایسے مضبوط حامی کے طور پر تعریف کی “جس نے مالیات کو اُن مقامات اور منصوبوں پر مرکوز کرنے کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کی جہاں حقیقی معنوں میں امداد کی ضرورت ہوتی ہے اور اِن میں انتہائی غربت میں رہنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔”
میلپاس آج کل محکمہ خزانہ میں بین الاقوامی امور کے نائب وزیر ہیں۔ وہ محکمہ خزانہ اورمحکمہ خارجہ میں دیگر دو امریکی صدور کے ساتھ خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کانگریس کی مشترکہ اقتصادی کمیٹی کی رہنمائی بھی کر چکے ہیں۔
ماضی میں انہوں نے عالمی بنک پر چین کو ایسے وقت میں بڑے بڑے قرضے دینے پر تنقید کی جب اس کی معیشت دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکی تھی۔
میلپاس نے صدر ٹرمپ کا “عالمی بنک کے لیے سرمائے میں بڑے اضافے اور اصلاحاتی پیکیج” پر مذاکرات کرنے پر شکریہ ادا کیا۔” انہوں نے مزید کہا، “ایسی تعمیری اصلاحات کرنے کا اب ایک عظیم موقع ہے جن کا نتیجہ تیز تر ترقی اور زیادہ سے زیادہ خوشحالی کی صورت میں نکلے گا۔”
انہوں نے کہا کہ ہمارا “بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ عورتیں ترقی پذیر معیشتوں میں مکمل شرکت کی منزل پا سکیں۔” صدر نے میلپاس کی نامزدگی کا اسی دن اعلان کیا جس دن انہوں نے نے عورتوں کے عالمی ترقی اور خوشحالی کے پروگرام کے قیام کی انتظامی یاد داشت پر دستخط کیے۔
صدر کی بیٹی اور صدارتی مشیر ایوانکا ٹرمپ کی سرکردگی میں اس پروگرام کے تحت امریکی حکومت کی ایک مربوط پالیسی دی جائے گی تاکہ ترقی پذیر ممالک کی پانچ کروڑ خواتین 2025ء تک اپنی معاشی صلاحیتوں سے مکمل طور پر فائدہ اٹھا سکیں۔
بنک کے بورڈ کے ڈائریکٹروں کی طرف سے اگر انہیں منتخب کر لیا جاتا ہے تو وہ جِم یو کِم کی جگہ لیں گے جو اپنی پانچ سالہ مدت کے دوسرے سال اس عہدے سے دستبردار ہوگئے تھے۔ آج کل بورڈ نامزدگیاں وصول کر رہا ہے اور موسم بہار میں کوئی فیصلہ کرے گا۔