عالمی لیڈر روس پر اُس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے پر زور دے رہے ہیں جس کے تحت دنیا بھر میں محفوظ طریقے سے اناج پہنچایا گیا اور جس سے خوراک کی قیمتوں میں استحکام آیا۔
انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والے اداروں کے عہدیداروں اور حکومتی عہدیداروں نے روس کے 17 جولائی کو اقوام متحدہ کے بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے سے نکل جانے کے فیصلے کے سنگین نتائج کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتیرس نے اس معاہدے کو “خوراک کی عالمی سلامتی کا روح رواں اور شورش شدہ دنیا کے لیے امید کی ایک کرن قرار دیا ہے۔”
پوپ فرانسس نے براہ راست روس کو اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کا کہا۔ انہوں نے کہا کہ “میں اپنے بھائیوں، روسی وفاق کے حکام سے اپیل کرتا ہوں کہ بحیرہ اسود کے معاہدے کو بحال کیا جائے اور اناج کو بحفاظت ٹرانسپورٹ کیا جائے۔”
خوراک کی ترسیل کو لاحق خطرات
اقوم متحدہ اور ترکیہ کی ثالثی سے جولائی 2022 میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت 32 ملین میٹرک ٹن سے زیادہ یوکرین کی زرعی برآمدات کو بحیرہ اسود کے راستے منتقل کیا گیا۔ اس میں سے لگ بھگ 19 ملین میٹرک ٹن اناج ترقی پذیر ممالک میں پہنچایا گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس معاہدے سے مارچ 2022 کے بعد سے خوراک کی قیمتوں کو 23 فیصد سے زائد کم کرنے میں مدد ملی ہے۔
اقوام متحدہ میں البانیہ کے سیاسی رابطہ کار، ایریان سپاسے نے 26 جولائی کو کہا کہ “روس اناج کے معاہدے کو ختم کرنے کے اپنے حالیہ ترین فیصلے سے ایک بار پھر خوراک کی ترسیل کے سلسلے میں خلل ڈال رہا ہے۔ اِس اقدام پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ [روس] بندرگاہوں اور اناج کے ذخیروں کو بھی قصداً نشانہ بنا رہا ہے۔”

عالمگیر اثرات
روس کے اس معاہدے سے نکل جانے کے بڑے وسیع نتائج نکلیں گے۔
افریقی یونین کمشن کے سربراہ موسٰی فاقی مہمت نے 28 جولائی کو کہا کہ “اناج کے معاہدے میں تمام دنیا کے لوگوں کی خاطر اور بالخصوص افریقہ کے لوگوں کی خاطر، بہرصورت توسیع ہونا چاہیے۔”
اس معاہدے کے تحت دنیا کے سب سے زیادہ غذائی عدم تحفظ کے شکار یمن، ایتھوپیا، صومالیہ اور افغانستان جیسے ممالک میں اناج پہنچایا گیا۔ سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوا جس نے اس معاہدے کے تحت تقریباً 8 ملین میٹرک ٹن زرعی اجناس برآمد کیں۔ اناج وصول کرنے والے دیگر ممالک میں مصر، بھارت، انڈونیشیا، کینیا اور تیونس بھی شامل ہیں۔
بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے کے تحت بھوک اور خوراک کے عدم تحفظ کا مقابلہ کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی انسانی تنظیم یعنی اقوام متحدہ کے خوراک کے عالمی پروگرام کو بھی یوکرینی اناج فراہم کیا گیا۔
عالمی تصادموں، موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی قیمتوں نے خوراک کی قلت، بالخصوص قرن افریقہ میں، اہم کر دار ادا کیا ہے۔

روس سے معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کے مطالبات
بہت سے ممالک اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سفارت کاری جاری رکھنے کا کہہ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ میں بھارت کی مستقل مندوب، روچیرا کمبوج نے 19 جولائی کو کہا کہ “بھارت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے کو جاری رکھنے کی حمایت کرتا ہے [اور] امید کرتا ہے کہ یہ تعطل جلد دور کر لیا جائے گا۔”
امریکی حکومت خوراک کے بحران سے نمٹنے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ امریکہ نے فروری 2022 سے خوراک کے عدم تحفظ سے نمٹنے کی خاطر 14 ارب ڈالر سے زائد کی رقم فراہم کی ہے جو کہ خوراک کے عالمی پروگرام کے مجموعی بجٹ کے 50 فیصد سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب لنڈا تھامس-گرینفیلڈ نے 31 جولائی کو کہا کہ “ایک ایسی دنیا میں کسی کو کبھی بھی بھوک سے نہیں مرنا چاہیے جہاں خوراک کی بہتات ہے۔ یہ انسانی مسئلہ ہے، یہ اخلاقی مسئلہ ہے، اور یہ سلامتی کا مسئلہ ہے۔”