عالمی مسائل سے نمٹنے والی بچی کے لیے جریدے “ٹائم” کا اعزاز

ایک امریکی جدت طرازلڑکی  ہائی سکول میں ہوتے ہوئے عالمی ماحولیاتی اور سماجی مشکلات سے نمٹنے کے لیے ٹکنالوجی کو استعمال کر رہی ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق 15 برس کی عمر میں لون ٹری، کولوراڈو کی گیتن جالی راؤ پینے والے پانی میں سیسے کی موجودگی کا پتہ چلانے والی، مسکن دواؤں کی لت کو ختم کرنے اور انٹرنیٹ پر ڈرانے دھمکانے کی حوصلہ شکنی کے لیے ٹکنالوجیاں تیار کر چکی ہے۔

ٹائم رسالے کا جس نے دسمبر میں پہلی مرتبہ گیتن جالی راؤ کے نام کا اس سال کی بچ شخصیت کے طور پر اعلان کیا، کہنا ہے کہ سرپرستی کے ذریعے وہ عالمگیر چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جدت طرازوں کی ایک عالمی برادری تیار کر رہی ہیں۔

راؤ کہتی ہیں، “واقعتاً میرا مقصد دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے نہ صرف اپنے آلات تیار کرنے سے  ہٹ گیا ہے بلکہ دوسروں کو بھی میں یہی کچھ کرنے کی ترغیب دے رہ ہوں۔ مجھے امید ہے یہ سب بچے جو کام کر رہے ہیں وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جدت طرازی ایک ضرورت بن  چکی ہے اور اب پسند نا پسند کی بات نہیں رہی۔”

ٹائم رسالے نے لکھا ہے کہ دیہی علاقے کے سکولوں، لڑکیوں کے کلبوں اور عجائب گھروں میں جدت طرازی کی ورکشاپوں میں کام کرتے ہوئے راؤ 30,000 طلبا و طالبات کی سرپرستی کر چکی ہیں۔

 ایک لڑکی اپنے سائنس کے پراجیکٹ کے بارے میں بتا رہی ہے (© Kathryn Scott/Denver Post/Getty Images)
نومبر 2017 میں ہائی لینڈز رینچ، کولوراڈو کے ایک سکول میں گیتن جالی راؤ پانی میں سیسے کی موجودگی کا پتہ چلانے والا اپنا تیار کرد ہ آلہ دکھا رہی ہیں۔ (© Kathryn Scott/Denver Post/Getty Images)

امریکی جدت طراز نئی ٹکنالوجیاں بناتے ہیں اور لوگوں کی زندگیوں میں بہتریاں لے کر آتے ہیں۔ جاپان اور جمہوریہ کوریا کی شراکت سے، امریکی حکومت سائنس، ٹکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی (سٹیم) کے شعبوں میں عورتوں کی شمولیت کو فروغ دے  رہی ہے جس سے معاشی خوشحالی اور ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔

راؤ نے ٹائم رسالے کو بتایا کہ اُن کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ کسی کو روزانہ خوش رکھنے کے لیے”کسی نہ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لائی جائے۔” اُن کی یہ خواہش انہیں مسائل حل کرنے کے لیے سائنس اور ٹکنالوجی کی طرف لے آئی۔ 11 برس کی عمر میں انہوں نے پینے کے پانی میں سیسے کی موجودگی کا پتہ چلانے کے لیے ایک ایسا آلہ تیار کیا جس کے نتائج سمارٹ فون کے ایک ایپ پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ امریکہ کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے مطابق سیسہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور یہ اُس وقت پانی میں شامل ہوتا ہے  جب پانی کے پائپ بوسیدہ ہو جاتے ہیں۔

راؤ نے انٹرنیٹ پر ڈرانے دھمکانے کی روک تھام کے لیے بھی ایک ایپ تیار کیا ہے۔ اس میں مصنوعی ذہانت کو استعمال میں لاتے ہوئے تکلیف دہ الفاظ کی نشاندہی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے صارف کو اپنا میسیج بھیجنے سے پہلے اُس پر نظرثانی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

اِن دنوں وہ ترقی پذیر ممالک کی پینے کے پانی میں طفیلی جراثیموں جیسے  آلودگی پھیلانے والے حیاتیاتی مواد کی آسانی سے نشاندہی کرنے میں مدد کرنے کے لیے ایک نئے آلے پر کام کر رہی ہیں۔

راؤ طالبعلموں کو یہ مشورہ دیتی ہیں کہ وہ کئی ایک مسائل کو بیک وقت حل کرنے کی بجائے  کسی ایسے مسئلے کو حل کرنے کا انتخاب کریں جو پیچیدہ دکھائی دیتا ہو اور پھر اپنی پوری توانائی اس کے حل کے لیے وقف کر دیں۔

راؤ نے ٹائم رسالے کو بتایا، “اگر کوئی چیز اتنی چھوٹی ہو جیسا کہ میرا کوڑا جمع کرنے کی کوئی آسان طریقہ تلاش کرنا کی کوشش، پھر بھی اس سے فرق ضرور پڑتا ہے۔ کوئی بڑا کام کر دکھانے (کی سوچ کے) دباؤ میں نہ آئیں۔”