سالہا سال سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد تازہ ترین ایجادات دیکھنے اور اچھا وقت گزارنے کے لیے جوق در جوق عالمی میلوں میں شرکت کرتی چلی آئی ہے۔
یہ روایت زندہ ہے۔ منیسوٹا 2023 میں ہونے والی خصوصی نمائش کی میزبانی کا امیدوار ہے جس کا موضوع “صحت مند لوگ، صحت مند کرہِ ارض: سب کے لیے عافیت و خوشحالی” ہو گا۔ میزبانی کے حصول کے لیے منیسوٹا کا مقابلہ پولینڈ کے شہر، لوڈز اور ارجنٹائن کے شہر، بیونس آئرس سے ہے۔
عالمی میلوں کے سکالر اور مونٹانا سٹیٹ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر، رابرٹ ریڈل کہتے ہیں، ” میلوں سے حاصل ہونے والے اقتصادی فوائد، گیٹ پر ٹکٹوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقومات سے کہیں زیادہ بڑھکر ہوتے ہیں۔ ان سے ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں اور سیاحتی مد میں آمدنی حاصل ہوتی ہے جس کے اثرات مستقبل میں کئی دہائیوں تک ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔
شہروں نے عالمی نمائشوں کو ترقی یا بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے موقعوں کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ ریڈل کے مطابق “پہلے پہل میلے غیرمعمولی ہوا کرتے تھے کیونکہ ان کی بدولت رفاع عامہ کے ایسے کاموں میں ترقی دیکھنے کو ملتی تھی جن کا تعلق نکاسیِ آب، پانی اور بجلی کے نظام سے ہوتا تھا۔”
نمائش کسی کم معروف شہر کو ایک پہچان بھی عطا کرتی ہے اور اس کا نام اور سحر عالمی سطح پر ابھر کر دنیا کے سامنے آتا ہے۔ ذیل میں امریکہ میں منعقد ہونے والی چند قابل ذکر عالمی نمائشوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
شکاگو، 1893 اور 1933

شکاگو نے 1893 میں ہونے والی کولمبین نمائش کے لیے نکاسیِ آب، پانی اور بجلی کے نئے نظام تعمیر کیے۔ “فیرس وہیل” وہیں متعارف کرایا گیا جبکہ رعایتی نرخوں پر اشیا کی فروخت اور دیگر کشش کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد میلے میں آئی۔ کہا جاتا ہے کہ ہیم برگر 1893 کی شکاگو نمائش میں ہی مقبول ہوا تھا۔ 34-1933 میں یہاں ہونے والا میلہ معاشی بحران کی انتہا کے دوران منعقد ہوا جس کا حوصلہ افزا موضوع “ترقی کی صدی” تھا۔ اس میلے میں ذرائع نقل و حمل کی جدید اقسام جیسے ٹرینیں، موٹرگاڑیاں اور “مستقبل کے گھر” نمائش کے لیے رکھے گئے تھے۔
سینٹ لوئی، 1904

1904 میں بجلی ایک نئی چیز تھی چنانچہ سینٹ لوئی میں ہونے والے عالمی میلے میں بجلی کے ذریعے شاندار انداز میں روشن کیا گیا ایک محل بھی دکھایا گیا۔ الیگزنڈر گراہم بیل کا ایجاد کردہ لاسلکی ٹیلی فون یا “ریڈیو فون” پہلی مرتبہ سینٹ لوئی کے میلے میں ہی دنیا کے سامنے لایا گیا۔ تھامس ایڈیسن کی تیار کردہ ایکس رے مشین بھی اسی میلے میں لوگوں کو دکھائی گئی۔ اس موقع پر لوزیانا خریداری کی 100ویں سالگرہ بھی منائی گئی۔ 1803 میں امریکہ اور فرانس کے مابین ایک معاہدے کے ذریعے امریکہ نے دریائے مسیسپی کے مغرب میں قریباً 21 لاکھ مربع کلومیٹر زمین خریدی تھی۔ 1904 میں امریکہ میں ہونے والے پہلے اولمپک کھیلوں کے مقابلے اسی میلے میں منعقد ہوئے۔
سان ڈیاگو، 1915

عالمی میلوں میں بیشتر عمارتیں عارضی نوعیت کی ہوتی تھیں جنہیں میلوں کے اختتام پر مسمار کر دیا جاتا تھا۔ تاہم سان ڈیاگو میں ایسے نہیں کیا گیا۔ 1915 میں ہونے والی پانامہ کیلیفورنیا نمائش کے لیے تعمیر کردہ ہسپانوی نشاۃ ثانیہ کے انداز کی عمارت محفوظ کر لی گئی اور اسے بحال کیا گیا۔ آج بھی یہ عمارت بالبوا پارک میں عجائب گھر اور نمائش ہال کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ اس میلے کے دوران بنایا گیا سان ڈیاگو کا شہرہِ آفاق چڑیا گھر آج بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
نیویارک، 1939، 40 اور 1964

معاشی بحران کے اختتام اور دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے موقع پر 1939 میں نیویارک میں ہونے والے عالمی میلے نے لوگوں کو ” کل کی دنیا” کی ایک جھلک دکھائی جہاں آنے والے وقت کی تصویر دکھاتی ٹریلن اور پیری سفیئر نامی دو بڑی عمارتیں بنائی گئیں جنہیں اوپر دیئے گئے میلے کے سرکاری پوسٹر میں بھی دکھایا گیا تھا۔ میلے تک بہتر رسائی کے لیے برونکس تا وائٹ سٹون برج کے علاوہ ایک نئی زیر زمیں ریلوے لائن تعمیر کی گئی۔ میلے کے اختتام پر ان عمارتوں میں استعمال ہونے والا 40 ملین ٹن سٹیل جنگی مقاصد کے لیے بھیج دیا گیا۔ پارک اپنی جگہ موجود رہا اور اسے 1964 میں یہاں ہونے والے عالمی میلے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بعد میں ہونے والے میلے کے لیے تعمیر کردہ سٹیل کا بہت بڑا یونیسفیئر نامی گلوب آج بھی اسی جگہ موجود ہے۔ یہ “وسعت پذیر کائنات میں سکڑتی دنیا پر انسانی کامیابیوں” کی علامت ہے جو کہ 1964 میں ہونے والے میلے کا موضوع تھا۔
سیاٹل، 1962

سیاٹل میں “21ویں صدی” کی نمائش، سرد جنگ کی کشیدگی والے برسوں میں منعقد ہوئی۔ امریکہ کے لیے اپنی سائنسی ترقی کے اظہار کا یہ ایک موقع تھا۔ ناسا کے موضوع پر امریکی سائنسی نمائش میں خلائی دور کے شہر اور صنعتیں دکھائی گئیں۔ تمثیلی خلائی سوئی (اوپر) کے قدموں میں بنائی گئی عمارت آج بحر الکاہل سائنسی مرکز کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق عجائب گھر ہے۔
سان انتونیو، 1968

شہر کی 250ویں سالگرہ کے موقع پر سان انتونیو کے عالمی میلے کا موضوع “براعظمہائے امریکہ میں تہذیبوں کا سنگم” تھا۔ یہ میلہ “ہیمیس فیئر” کے نام سے بھی معروف ہے۔ براعظمہائے امریکہ کے مینار کے اردگرد 30 سے زیادہ ممالک کے پیویلین تیار کیے گئے تھے۔ یہ مینار آج بھی موجود ہے اور مشاہداتی مینار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ مینار کے گرد پانچ ملکی وسطی امریکی پیویلین اور امریکی ریاستوں کی تنظیم کا پیویلین بھی تھا جن سے 11 اضافی لاطینی امریکی ممالک کی نمائندگی ہوتی تھِی۔ اس جگہ اب پارک موجود ہے اور میلے کی باقی ماندہ عمارتوں میں ایک یونیورسٹی اور ثقافتی مراکز قائم ہیں۔