خلائی جہاز کے سامنے نیلے سوٹوں میں ملبوس چار افراد ہاتھ فضا میں بلند کیے کھڑے ہیں (© LM Otero/AP Images)
بلیو اوریجن کے نیو شیپرڈ راکٹ کے تازہ ترین خلائی مسافر — بائیں سے دائیں، آڈری پاورز، اداکار ولیم شیٹنر، کرس بوشوزین اور گلین ڈی ورائیز — 13 اکتوبر 2021 کو ٹیکساس میں سپیس پورٹ پر ہاتھ فضا میں بلند کیے کھڑے ہیں۔ (© LM Otero/AP Images)

متجسسین کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کے نزدیک خلا نیا انٹارکٹیکا یا ماؤنٹ ایورسٹ ہے۔ گوکہ امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنے خلائی پروگرام کے تحت گزشتہ برس چار خلابازوں کو خلا میں بھیجا تاہم حکومتی خلائی پروگرام کے علاوہ بھی دو درجن سے زائد افراد نے خلا کا سفر کیا۔

اِن میں سے ایک سٹار ٹریک ٹیلی ویژن سیریز میں کیپٹن کرک کا کردار ادا کرنے والے اداکار، ولیم شیٹنر تھے۔ اُن کی اکتوبر کی خلائی پرواز نے 90 سالہ شیٹنر کو خلا کا سفر کرنے والا معمرترین شخص بنا دیا۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایلیٹ سکول میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر اور خلائی پالیسی کے ڈائریکٹر، سکاٹ پیس کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکی حکومت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ خلائی سفر سے شائقین کو نقصان نہ پہنچے، مگر نجی کاروباروں کے لیے خلائی پرواز کے مواقع کھولنا ایک فطری پیش رفت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت ایسے شعبوں میں تحقیقی کام کرنے میں آگے آتی ہے جب وہ کام کاروباری لحاظ سے منافع بخش نہیں ہوتے۔ لہذا جب نجی خلائی شعبہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جئے گا تو پھر یہ تیز رفتاری اور زیادہ مؤثر طریقے سے کام کر سکے گا۔

اس ماہ 28 فروری کو”ایکزیوم سپیس” نامی کمپنی چار افراد پر مشتمل سویلین عملے کے ساتھ ایک مشن بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے لیے روانہ کرے گی۔ یہ پہلا مشن ہوگا جس کا سارا عملہ سویلین افراد پر مشتمل ہو گا۔ وہ جس خلائی جہاز پر سفر کریں گے اُس کا نام “سپیس ایکس کریو ڈریگن” ہے۔

 بین الاقوامی خلائی سٹیشن (NASA)
روسی خلائی جہاز کے عملے کے ارکان نے 2018 میں بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی یہ تصویر اُس وقت کھینچی جب اُن کا خلائی جہاز سٹیشن سے لیحدہ ہو چکا تھا۔ (NASA)

فِل میک ایلسٹر، ناسا کے ہیڈکوارٹر میں کمرشل خلائی پروازوں کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “جیسے جیسے زیادہ لوگ خلا کا سفر کر رہے ہیں اور خلائی پروازوں کے دوران زیادہ کام کر رہے ہیں ویسے ویسے اور زیادہ لوگ ذیلی مدار میں مزید سرگرمیاں کرنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ [یہ امر] اُس بڑھتی ہوئی مارکیٹ کی عکاسی کرتا ہے جس کا ہم نے 10 سال پہلے کمرشل کریو پروگرام شروع کرتے وقت سوچا تھا۔”

خلا میں جانے والوں کی ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، اینڈی ٹرنیج کے مطابق ایسوسی ایشن کے پاس 609 ایسے افراد کی فہرست ہے جو ذیلی مدار یا مکمل مدار میں جا چکے ہیں۔ اس وقت نجی خلابازوں کی تعداد 30 کے قریب ہے مگر اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

حال ہی میں ایسے ارب پتیوں میں اضافہ ہوا ہے جنہوں نے اپنے نام کے ساتھ “خلائی مسافر” کا اضافہ کیا ہے۔ برطانوی شہری اور ورجن گیلیکٹک کے بانی رچرڈ برینسن  نے 2021 میں ذاتی پیسے سے پہلا خلائی جہاز تیار کروایا جس میں سوار ہو کر وہ خلا میں گئے۔ ایمیزون کے بانی اور امریکی شہری، جیف بیزوس نے بھی کچھ دن بعد اپنے “بلیو اوریجن” خلائی جہاز میں خلا کا سفر کیا۔

میک ایلیسٹر کہتے ہیں، “یہ سال انسانی خلائی پرواز کے حوالے سے حقیقی معنوں میں ایک نشاۃ ثانیہ ہے کیونکہ ہم ناسا اور امریکہ کے کمرشل عملے والے خلائی جہازوں کو بین الاقوامی خلائی سٹیشن بھیج  رہے ہیں اور ہمیں خلا بازوں کے نجی مشنوں میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔”

خلائی پہل کار

 کرسٹا میکالف ہیلمٹ اور خلائی لباس پہنے مسکرا رہی ہیں (© Ed Kolenovsky/AP Images)
1985 میں نیو ہیمپشائر کی ٹیچر، کرسٹا میکالف خلائی شٹل چیلنجر کے جنوری 1986 میں دھماکے سے پھٹ جانے سے پہلے تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ اس حادثے میں وہ اور عملے کے چار دیگر ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔ میکالف نے خلائی پرواز میں امریکیوں کی دلچسپی میں اضافہ کیا۔ (© Ed Kolenovsky/AP Images)

بیزوس اور برینسن خلا میں جانے والے پہلے عام شہری نہیں تھے۔

ناسا کی جانب سے سویلین شہریوں کے لیے خلا کو کھولنے کی پہلے کوشش میں 1986 میں ایک ٹیچر، کرسٹا میکالف کو پہلی خلائی مسافر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ مگر یہ کوشش اس وقت ناکام ہو گئی جب “چیلنجر” نامی خلائی شٹل کے حادثے میں میکالف ہلاک ہوگئیں۔ 1990 میں ریڈیو ٹی وی کے جاپانی صحافی، اکیاما ٹویوہیرو نے روس کے ایم آئی آر خلائی سٹیشن پر سات دن گزار کراولین نجی خلاباز کا اعزاز اپنے نام کیا۔

سوویت یونین کے بعد کے روس کو خلائی سیاحت ایک منافع بخش متبادل نظر آئی۔ امریکی تاجر ڈینس ٹیٹو نے روسی خلائی جہاز پر پرواز کے لیے ادائیگی کی اور 2001 میں بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر پرواز کرنے والے پہلے عام شہری بن گئے۔

 خلائی لباس پہنے ڈینس ٹیٹو وہیل چیئر میں بیٹھے ہیں اور لوگ اُن کی وہیل چیئر کو چلا رہے ہیں (© Newsmakers/Getty Images)
60 سالہ امریکی خلائی سیاح ڈینس ٹیٹو مئی 2001 میں قازقستان کے علاقے آرکالک کے قریب روسی سویوز خلائی کیپسول سے زمین پر اترنے کے بعد ہاتھ لہر رہے ہیں۔ ٹیٹو بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے چھ روزہ سفر سے واپس آئے تھے۔ (© Newsmakers/Getty Images)

پیس کا کہنا ہے کہ لوگ برسوں سے تجارتی خلائی پروازوں میں دلچسپی لیتے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم  اس کی توسیع کا انحصار لاگت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ خطرات کو کم کرنے پر بھی ہوگا۔ موجودہ لاگت دسیوں ملین ڈالر فی شخص فی پرواز ہے۔

مستقبل کی پروازیں

امریکہ میں ذیلی مدار کی پروازیں بلیو اوریجن اور ورجن گیلیکٹک کے ذریعے دستیاب ہیں۔ سپیس ایکس اور بوئنگ مدار کی پروازوں کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ آخر الذکر کا سٹار لائنر مئی میں بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر روانہ ہونے والا ہے۔

 شام کے وقت راکٹ سے نکلنے والے دھوئیں سے بننے والی قوس (© Terry Renna/AP Images)
20 دسمبر 2019 کی اس لمبے ایکسپوژر والی تصویر میں یونائیٹڈ لانچ الائنس اٹلس پنجم راکٹ، بوئنگ سٹار لائنر کے عملے کو لے جانے والا کیپسول کو لے کر کیپ کینیوریل، فلوریڈا سے مدار کی آزمائشی پرواز پر روانہ ہو رہا ہے۔ (© Terry Renna/AP Images)

ناسا کی کیملی ایلین کا خیال ہے کہ نجی کمپنیاں خلائی معیشت میں جدت اور تیزی لا سکتی ہیں۔ ایلین ذیلی مدار کے تجارتی ترقیاتی پروگرام کی ڈپٹی مینیجر ہیں۔ انہوں نے ناسا کے ایک پوڈ کاسٹ میں کہا، “مسابقت کے ذریعے اخراجات  میں کمی آتی ہے اور یہ  حکومت کے لیے اچھا ہوتا ہے۔”

پیس نجی خلائی تحقیق کو “امریکہ کی علامیت کے اُس خاصے کے طور پر دیکھتے ہیں جو مہم جوئی، کاروباری نظامت کاری اور نئے جہانوں کے لیے باہر نکلنے سے عبارت ہے۔۔”