عراقی سول و فوجی رابطہ کاری میں بہتری لانے میں نیٹو کا تعاون

عراق میں داعش کا خاتمہ قریب ہے مگر شدت پسند جنگجوؤں کی جانب سے کھنڈر بنائے گئے شہروں کی تعمیرِنو کے بہت بڑے کام کا ابھی آغاز ہو رہا ہے۔

لاکھوں پناہ گزین گھروں کو واپسی کے منتظر ہیں جبکہ ان کے تحفظ اور داعش کے ظالمانہ تسلط میں نقصان کا شکار یا تباہ ہونے والی خوراک، پانی، بجلی، نکاسی آب، صحت عامہ جیسی بنیادی سہولتیں اور دیگر نظام کی بحالی کے لیے عراقی فوج اور سویلین وزارتوں کا کردار بے حد اہم ہے۔

تمام ممالک کے دارالحکومتوں میں حکومتوں کو افسر شاہی کو اپنے اپنے خولوں میں علیحدہ علیحدہ کام کرنے کی بجائے ہم آہنگی سے کام کروانے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ بغداد بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ چنانچہ معاہدہِ شمالی اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) عراقی وزارتوں کے مابین قریبی تعاون پیدا کر کے کام کرنے میں مدد دے رہی ہے۔

عراقی وزارت آبی وسائل، بجلی، تیل، صحت اور مہاجرت و بے گھری نیز دفاع، داخلہ اور انسداد دہشت گردی کے محکموں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ سطحی حکام نے نیٹو کے مشیروں کی جانب سے منعقدہ ورکشاپوں میں شرکت کی۔ ان ورکشاپوں کا مقصد دہشت گردی کے خاتمے اور بحرانوں پر قابو پانے کی کوششوں میں وزارتی و محکمہ جاتی تعاون بہتر بنانا ہے۔

ایک پولیس افسر ہاتھ میں بندوق تھامے تیل کی تنصیبات اور تیل کے ایک کنویں سے بلند ہونے والے شعلے کے قریب سے گزر رہا ہے۔ (© Essam Al-Sudani/Reuters)
وزات تیل کا ایک پولیس افسر تیل کی تنصیبات کے کے قریب گشت کر رہا ہے۔ (© Essam Al-Sudani/Reuters)

2004 سے 2011  تک نیٹو 15 ہزار افسروں کو تربیت دینے کے لیے بڑی تعداد میں عراق میں موجود رہی۔ آج ایک شراکتی معاہدے کے تحت نیٹو کی ایک چھوٹی سی ٹیم عراقی حکومت کو بارودی سرنگوں کی صفائی سے لے کر سکیورٹی کے شعبے میں اصلاحات اور بحرانوں پر قابو پانے تک، بہت سے مسائل سے نمٹنے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔

بغداد میں اٹلی سے تعلق رکھنے والے نیٹو کے فوجی نمائندے، بریگیڈیئر جنرل پیئر فرانکو تریا کہتے ہیں، “ہم ہر کام میں عراقی اداروں کی مدد کرنے اور انہیں مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔”

‘سول و فوجی تعاون’ 29 جمہوریتوں کے فوجی و سیاسی اتحاد، نیٹو کے کلچر کا بنیادی جزو ہے۔ تاہم تریا کا کہنا ہے کہ ورکشاپ کا مقصد، عراق پر پہلے سے تیار نیٹو کے طور طریقوں کے نمونوں کو مسلط کرنا نہیں ہے۔ ان کے مطابق ” حتمی طور پر یہ عراق کی سربراہی میں جاری اس کی ایک اپنی سرگرمی ہے اور ہم ان کے باہمی تعامل کو صرف آسان بنا رہے ہیں۔”

ایک شخص بجلی کے جنریٹر کا معائنہ کررہا ہے۔ (© Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images)
بغداد میں 13 ستمبر کو ایک کارکن بجلی کے جنریٹر کا معائنہ کر رہا ہے۔ (© Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images)

وزارت داخلہ کے ایک افسر کو وزارت بجلی کے اپنے ایک ہم منصب سے فون نمبروں کا تبادلہ کرتے ہوئے دیکھ  کر ان [تریا] کو بہت اچھا لگا۔

عراقی وزارت دفاع میں شہری امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر، بریگیڈیئر جنرل محمد خلاف جساس نے ایک ای میل میں کہا کہ اس ورکشاپ سے ‘ایک ٹیم کے طور پر’ کام کرنے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔

اب یہ کام آزاد کرائے گئے شہر موصل میں ہو رہا ہے جہاں فوجی کمانڈر اور سویلین حکام بے گھر خاندانوں کے لیے خوراک کا بندوبست، بجلی لائنوں کی مرمت نیز پولیس سٹیشن اور صحت عامہ کے مراکز کھولنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، “سبھی کی جانب سے باہمی تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔”

آبی وسائل کی وزارت کی جانب سے ورکشاپ میں شریک ایک افسر کا کہنا تھا کہ قریبی تعاون سے زندگیاں بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہیں امید ہے کہ فوجی اور سول وزارتوں میں یہ تعلق “امن اور نظم و نسق کی بحالی کے بعد” بھی جاری رہے گا۔

اٹلی کی فوج میں کیولری رجمنٹ کے سابق کمانڈر کے طور پر کام کرنے والے تریا کہتے ہیں کہ سول اور فوجی تعاون، طریقہائے کار کے مجموعے سے بڑھکر کہیں زیادہ ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔

تربیتی مشق کے اختتام پر ورکشاپ میں شریک ایک افسر نے تریا کو بتایا،  “ناصرف موصل بلکہ پورے عراق کی بحالی کے لیے یہی جذبہ درکار ہے۔”