کسی بڑے پیمانے کی کوئی قدرتی آفت آ جائے اور اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ امدادی کاروائیوں کے لیے آپ کو صرف “پرنٹ” کا بٹن دبانا ہو۔
تھری ڈی یعنی سہ جہتی پرنٹنگ کی ٹکنالوجی میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔ صرف چھ مہینے قبل یہ بڑی غیر معمولی بات سمجھی جاتی تھی کہ ڈرون سے کسی عمارت کی تصویر لی جائے یا کسی جنگل کا خاکہ بنایا جائے، اور پھر ہر ایک درخت کی انفرادی تفصیلات سمیت تمام پیمائشوں اور اعداد و شمار کو تھری ڈی پرنٹر کو بھیج دیا جائے۔ مگر آج یہ تقریباً عام سی بات ہے کہ کسی عمارت کے گِر جانے کے بعد بحالی کی کارروائیوں کے کمانڈ سینٹر میں اس علاقے کے جغرافیائی خدو خال کے تھری ڈی یعنی سہ جہتی چھپے ہوئے نقشے کوعملی طور پر استعمال میں لایا جائے۔
تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے پہلے ہی یہ چیزیں حاصل کی جا سکتی ہیں:
— ذاتی پسند کے کھانے
— جغرافیائی خدوخال کے نقشے
— کنکریٹ جیسا تعمیراتی سازوسامان
معالجین جسمانی اعضا کے حصے پرنٹ کر سکتے ہیں اور شدید زخمی افراد کے لیے حسبِ ضرورت مصنوعی اعضا تیار کر سکتے ہیں۔ وہ جِلد کی بایو پرنٹنگ یا حیاتیاتی چھپائی پر کام کر رہے ہیں تاکہ آگ کے زخموں کے لیے جلد کے خلیے پرنٹ کیےجا سکیں۔
یہ کام کس طرح کیا جاتا ہے؟
تھری ڈی پرنٹنگ میں کمپیوٹر کی مدد سے تیار کیے گئے مٹیریل کی تہوں کو آپس میں جوڑ کر ایک سہ جہتی چیز تیار کی جاتی ہے۔ یہ ٹکنالوجی قدرتی آفات کے بعد بحالی کی کارروائیوں میں مفید ثابت ہوتی ہے اور اسے ایسے حالات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جب تیز رفتاری سے اور بڑے پیمانے پر اشیاء کی تیاری درکار ہو۔
مثال کے طور پر کسی تباہ کن طوفان کے بعد، یا جب کسی پناہ گزین کیمپ میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو غذائی امداد کی ضرورت ہو تو پیک شدہ غذائی سامان کی بہت بڑی مقدار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی بجائے، ہلکے پھلکے تھری ڈی پرنٹروں کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ ایک پرنٹر جس کے لیے تقریباً 27 مکعب فٹ (0.8 مکعب میٹر) جگہ درکار ہوتی ہے، 12 انچ (30 سینٹی میٹر) کا ایک پیزا ایک منٹ میں تیار کر سکتا ہے۔
مستقبل میں مریخ پر جانے والے خلا بازوں کوغذا فراہم کرنے کی غرض سے ناسا کی طرف سے شروع کیے جانے والے ایک پراجیکٹ میں، کیلی فورنیا کے شہر کُپرٹینو میں ‘بی ہیکس اِنک’ نامی کمپنی پیزا، فوڈ بار اور میٹھی چیزیں تیار کرنے کے لیے تھری ڈی پرنٹر استعمال کررہی ہے۔
بی ہیکس کے جارڈن فرنچ کے مطابق، کسی فرد کی ذاتی ضرورت کے حساب سے ایسے کھانے تیار کیے جا سکتے ہیں جن میں کیلوریز کی مقدار بالکل صحیح ہو۔ انھوں نے کہا کہ روبوٹ کے ذریعے کھانے کی تیاری کا یہ ایک صاف ستھرا، صحت بخش اور تیز رفتار تجربہ ہو گا۔
دیگر نئے استعمال

وائٹ کلاؤڈز کے ایک مینیجر، کرِس فوورز کا کہنا ہے، “تصویروں اور وڈیو کو دیکھنا اور بات ہے، لیکن سہ جہتی نقطہ نظر سے میز پر پڑے ہوئے کسی ماڈل کو دیکھنا اور بات ہے۔” ریاست یوٹاہ کی دا اوگڈن نامی تھری ڈی پرنٹنگ کمپنی، کاشت کاروں، کان کنوں اور تعمیری کام کرنے والوں کے لیے نقشوں کے ماڈل تیار کرتی ہے۔
تھری ڈی میڈیکل ٹکنالوجی بھی بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور اگرجلد کی بایو پرنٹنگ کامیاب ہوگئی تو اس سے جلنے کے زخموں کے علاج میں مدد ملے گی۔ میدان جنگ میں تقریباً 20 فیصد افراد جلنے کی وجہ سے ہلاک یا زخمی ہوتے ہیں۔

نارتھ کیرولائنا میں ‘ویک فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ فار ریجینیریٹو میڈیسن’ [ویک فارسٹ کے نئے اعضا تیار کرنے کے طبی انسٹی ٹیوٹ] کے سائنسدان تھری ڈی پرنٹڈ انسانی ہڈیاں اور پٹھے تیار کر رہے ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ ایک دن ایسا آئے جب وہ جِلد کے علاوہ دوسرے اعضا بھی تیار کرنے لگیں۔
فی الحال بیشتر انسانی اعضا پرِنٹ نہیں کیے جا سکتے کیوں کہ یہ خلیات سے بھرے ہوتے ہیں اور انہیں بہت زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر سائنسدان ان کی تیاری پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ویک فاریسٹ کے سائنسدانوں نے کامیابی سے پیشاب کی نالی جیسے نالی دار اعضا اور مثانے جیسے خول دار اعضا، کامیابی سے تیار کر لیے ہیں اور ان کی انسانی جسم میں پیوند کاری بھی کی ہے۔
تھری ڈی پرنٹنگ قدرتی آفات کے بعد تعمیرِ نو کے کاموں میں بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ کیلی فورنیا کے سائنسدانوں نے ایسا تھری ڈی پرنٹڈ مٹیریل تیار کیا ہے جو کنکریٹ کی طرح مضبوط ہے اور کاربن ڈائی آکسائڈ گیس سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ وہی گیس ہے جو بجلی گھروں سے خارج ہوتی ہے۔ کنکریٹ سے ملتی جُلتی اس چیز کو ‘کاربن ایکس پرائز’ ملنے کا امکان ہے۔ یہ وہ مقابلہ ہے جس میں کاربن ڈائی آکسائڈ سے قابلِ استعمال اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلیس میں انجنیئرنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر، گوراو سنت کہتے ہیں کہ تھری ڈی پرنٹڈ CO2NCRETE [یعنی کاربن ڈائی آکسائڈ سے کنکریٹ کی تیاری] سے اعلیٰ معیار کے کم قیمت مکانات کی تعمیر اور بنیادی سہولتوں کی بحالی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ سنت نے کہا کہ 2020ء تک تجارتی پیمانے پر ان چیزوں کی تیاری شروع ہو سکتی ہے۔
یہ مضمون فری لانس مصنفہ کیتھلین مرفی نے تحریر کیا۔