عورتوں کا امریکہ میں دیرپا کاشت کاری کو فروغ دینا

حالیہ دہائیوں میں امریکہ کے دیہی علاقوں کی عورتوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے زرعی فارم بنائے ہیں۔

اس سے بھی بڑھکر بات یہ ہے کہ یہ خواتین کاشت کار ہی ہیں جو روزافزوں پائیدار تکنیکیں استعمال کر رہی ہیں۔ مٹی کی ٹیسٹنگ اور بچاؤ، زمین کو ڈھانپ لینے والے پودوں کی کاشت، مستقل سبزہ اگانا، کھاد بنانا اور بدل بدل کر فصلیں کاشت کرنا اِن تکنیکوں کی چند ایک مثالیں ہیں۔ اب موسمیاتی تبدیلی کے نتائج سے مجبور ہو کر وسیع پیمانے پر فصلیں کاشت کرنے والے تجارتی فارم بھی اِن خواتین کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

خواتین کاشت کار “سلو فوڈ موومنٹ” نامی تحریک کی لیڈر بن کر ابھری ہیں۔ اس تحریک کے تحت صارفین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ نامیاتی اور مقامی طور پر کاشت کی جانے والی اجناس خریدیں۔

یہ تحریک 1990 کی دہائی کے دوران اُس وقت اٹھی جب چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاشت کاروں کو یہ احساس ہوا  کہ صارفین کو براہ راست فروخت کرنا کارپوریٹ فارموں کا مقابلہ کرنے کا ایک منافع بخش طریقہ ہو سکتا ہے۔ صارفین مقامی پیداوار کو اعلٰی معیار کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ لہذا مقامی پیداوار کے لیے صارفین کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے 1994 سے 2013 تک امریکی قصبوں اور شہروں میں لگنے والی کسانوں کی مارکیٹوں کی تعداد چار گناہ بڑھی۔

اعداد و شمار کے آئینے میں

خواتین کاشت کاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت کی 2017 کی زرعی گنتی  (پی ڈی ایف،  1.4 ایم بی) کے مطابق امریکہ میں خوراک پیدا کرنے والوں میں خواتین کی شرح 36% ہے۔ 2012 کے مقابلے میں یہ اضافہ 27 فیصد ہے۔ آج امریکہ کے نصف زرعی رقبے پر خواتین کاشت کاری کرتی ہیں اور یہ رقبہ تقریباً 157 ملین ہیکٹر بنتا ہے۔

چونکہ خواتین اپنی کمیونٹیوں کے لوگوں کو اپنے دیرپا فارموں کی صحت بخش خوراک فروخت کرتی ہیں اس لیے وہ اپنے کاروباروں کے ساتھ ساتھ دیہی اور شہری دونوں قسم کے صارفین کے درمیان تعلق پیدا کر رہی ہیں۔  بہت سی خواتین کاشت کار گاہکوں کو غذائیت اور زراعت کے بارے میں آگاہی دیتی ہیں، سکولوں اور بے گھر لوگوں کو کھانا بطورعطیہ دیتی ہیں، کمیونٹی پروگراموں میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیتی ہیں یا سیاحوں کو عارضی طور پر “بریڈ اینڈ بریک فاسٹ” کی طرز پر اپنے ہاں کرائے پر ٹھہراتی ہیں یا پرچون کی ایسی دکانیں چلاتی ہیں جہاں دوسرے مقامی کاروباروں کی اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔

وائسر ڈواین 1981 میں کمبوڈیا سے امریکہ آئیں۔ اب وہ اور اُن کے شوہر ریاست اوہائیو میں “پرپل سکائی فارم” کے مالک ہیں۔ ڈواین کہتی ہیں کہ “میں لوگوں اور اِن کی خوراک کے درمیان ایک تعلق فراہم کرتی ہوں۔ جب ہمارے ہاں رات کو ٹھہرنے کے لیے یا فارم مارکیٹ میں مہمان آتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ سبزیاں کہاں سے آئی ہیں اور معیاری قسم کی سبزیاں اگانے میں کتنی محنت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔”

گرین ہاؤس میں کھڑی دو عورتیں (USDA)
ریاست الاسکا کے قصبے سیلڈوویا میں روزیناز گارڈن میں بنے ایک گرین ہاؤس میں ڈینہم (بائیں) اور روزاینا میک اینس۔ (USDA)

جب کووڈ-19 کی وجہ سے فوڈ کی سپلائی اور ٹرانسپورٹیشن میں خلل پڑا تو دور دراز کے علاقوں میں خوراک پہچانے میں پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔ اس موقع پر اپنی کمیونٹیوں کی مدد کرنے کے لیے خواتین کاشت کار میدان میں نکل آئیں۔

ریاست الاسکا کے قصبے سیلڈوویا کی روزاینا میک اینس وہ وقت یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ “یہاں سیلڈوویا میں صورت حال خوفناک تھی۔ خوراک کی قلت سر پر کھڑی تھی۔ میرے پڑوسی نے مجھ سے کہا کہ مجھے اپنے باغ کی سبزی بیچنا چاہیے۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ میں تیزی سے زیادہ سبزی فروخت نہیں کر سکتی تھی۔ لہذا اسی وقت میں نے اپنے باغ کو بڑا کرنے اور اپنی کمیونٹی کو خوراک مہیا کرنے میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔”

صدر رونالڈ ریگن نے 1980 کی دہائی میں “زراعت میں خواتین کا ہفتہ” منانے کا اعلان کیا۔ تب سے لے کر آج تک امریکی عوام  ڈواین اور میک اینس جیسی خواتین کاشت کاروں کی تکریم کرتے ہیں اور اپنی کمیونٹیوں کی خدمت کرنے پر اُن کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر یہ موضوع ٹرینڈ کر رہا ہے۔

فری لانس مصنفہ میگن فوشا نے یہ مضمون تحریر کیا۔