جب حرا بتول رضوی نے کام کرنا شروع کیا تو اُنہوں نے محسوس کیا کہ اُن کے اردگرد تمام خواتین کام پر آنے جانے کے مسائل پر مسلسل بات کرتی رہتی ہیں۔ ایسا اِس لیے ہے کہ پاکستان میں ایک عورت کے لیے اپنے کام پر پہنچنا اور اپنے لیے اور اپنے گھرانوں کے لیے روزی کمانا ایک مشکل کام ہو سکتا ہے۔

Hira Batool Rizvi holding trophy in front of Women Entrepreneurs Summit sign (Courtesy of Hira Batool Rizvi)
حرا بتول رضوی “انٹرپرینیورشپ سمٹ” کے سائن کے آگے ٹرافی لیے کھڑی ہیں۔ (Courtesy of Hira Batool Rizvi)

مس رضوی کو ایسی اور دیگر خواتین کی مدد کرنے کی اپنی خواہش کا بخوبی احساس تھا۔ لیکن اُنہیں اُس وقت تک کسی ایسے طریقے کا کچھ پتہ نہیں تھا جس سے وہ اِن خواتین کی مدد کر سکیں جب تک کہ اُنہوں نے امریکہ میں Uber اور Lyft  جیسی مشترکہ سواری کی سہولتوں کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ” میں نے دیکھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور پھر سوچا کہ ہمیں بھی، اپنی ثقافتی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، انہی خطوط  پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔”

لہذا اُنہوں نے پاکستان میں She`Kab  [شی کیب] کے نام سے خواتین کے لیے پہلی مشترکہ ٹیکسی سروس شروع کی۔ کام پر پہنچنے کے لیے آمد و رفت کے لیے ایک محفوظ، سستا اور قابل بھروسہ ذریعہ فراہم کرنا ایک مشن ہے۔ مس رضوی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، ” ہم دیکھ  رہے ہیں کہ پاکستان میں موجود آمد و رفت کے نظاماتی مسئلے  کو حل کرکے، شی کیب ہماری ملازمت پیشہ خواتین کو براہ راست با اختیار بنا رہی ہے۔”

شی کیب گاہک بناتی ہے اور اپنی ویب سائٹ کے ذریعے ان کا ڈرائیوروں سے رابطہ کرواتی ہے۔ اِس کام کے لیے سمارٹ فون کا ایک ایپ تیار کیا جا رہا ہے۔ 2015ء  کے موسم خزاں میں اِس کے آغاز کے چند مہینوں کے اندر، شی کیب کے  گاہکوں کی تعداد 800 سے تجاوز کر گئی اور یہ تعداد  مسلسل بڑھ  رہی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ  “شی کیب حقیقی معنوں میں مارکیٹ کی ایک ضرورت کو پورا کر رہی ہے اور اِس عمل سے ایک مضبوط سماجی نظامت کاری کا نمونہ بھی پیش کر رہی ہے۔”

عملی طور پر کام کا آغاز

مس رضوی کہتی ہیں کہ یہ کام شروع کرنا آسان نہیں تھا اور بالخصوص اس وجہ سے کہ “مجھے  اپنے پیشے اور مستحکم ماہانہ آمدنی کے ذرائع کو ایک طرف رکھنا پڑ رہا تھا۔” خوش قسمتی سے مس رضوی کو مدد دستیاب تھی۔ امریکہ – پاکستان خواتین کی کونسل کی شراکت سے انہوں نے جو تربیت  WECREATE/Pakistan center for women’s entrepreneurship  سے حاصل کی تھی اُس نے مس رضوی کے الفاظ میں میرے اِس نا آزمودہ تصور کے بارے میں ” میرے  اردگرد کے لوگوں کے ممکنہ ردعمل کی وجہ سے مجھ میں پائے جانے والے خوف پر قابو پانے میں میری مدد کی۔”

مس رضوی کے ذہن میں یہ بھی تھا کہ اُنہیں فوری طور پر پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ وہ کہتی ہیں، “میں نے سوچا کہ میں سرمایہ کاری کے بغیر کام شروع نہیں کر سکوں گی۔”  لیکن مس رضوی کے مطابق اُن سرپرستوں کی بدولت جنہیں وہ WECREATE/Pakistan center  میں مل چکی تھیں، “مجھے احساس ہوا کہ اپنے تصور کی توثیق کروانے میں مدد کی خاطر [ اور یہ کہ ] میں   اپنی ذاتی بچت سے کام کا آغاز کر سکتی ہوں ، جس چیز کی مجھے ضرورت ہے وہ فقط ایک قابل عمل منصوبہ ہے۔”

وہ کہتی ہیں کہ حیران کُن باتیں بھی ہُوئیں۔ مثلاً یہ کہ انہیں کاروبار کی خاتون مالکہ ہونے کی حیثیت سے مسائل کا سامنا کرنے کا خدشہ تھا۔ مگر اِس کے برعکس اُنہیں یہ تجربہ ہوا کہ اکثر “ہماری صنف ہمارے حق میں کام کرتی ہے۔ بعض لوگ خواتین مالکان کے ساتھ زیادہ شائستگی سے پیش آتے ہیں۔”

اِس کے باوجود سارے عملے کا مردوں پر مشتمل ہونا مشکلات سے خالی نہیں۔ اگرچہ اُنہیں فون پر اپنے ملازمین سے بات کرنے میں کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، تاہم اُنہوں نے دیکھا ہے کہ بعض ملازمین  اُن کے سامنے کُھل کر بات نہیں کرتے۔ مگر جب مس رضوی نے اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کے لیے اقدامات اٹھائے تو عملے کے اِس رویے میں بہت بڑی تبدیلی آگئی۔ “میں تربیتی کلاسوں اور ورکشاپوں کے دوران اپنے سر پر دوپٹہ لیتی ہوں جس سے وہ بہت زیادہ پُرسکون دکھائی دیتے ہیں۔”

کیا آپ ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟

کیا آپ اپنا ذاتی کاروبار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ مس رضوی آپ کو کامیابی کے مندرجہ ذیل گُر بتا رہی ہیں:

  • دوسرے کاروباری نظامت کاروں کے بارے میں پڑھیں اور اُن کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔
  • اپنی براہ راست اور بالواسطہ کاروباری مسابقت کا مطالعہ کریں۔
  • ایسے لوگوں سے ملاقات کریں جن سے آپ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو اور جو آپ کے خیالات کو منظم کرنے میں آپ کی مدد کر سکیں۔
  • میل ملاقات سے خوفزدہ نہ ہوں — آپ کو سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کار کہیں بھی مل سکتے ہیں۔
  • صرف اُن لوگوں کے ساتھ اپنے تصورات کے بارے میں بات کریں جو اِنہیں نہیں چُرائیں گے یا آپ کی حوصلہ شکنی نہیں کریں گے۔