
ریم ہمدان نے 1993 میں جب اردن کی الیکٹرسٹی ڈسٹری بیوشن کمپنی (ای ڈی سی او) میں زیر تربیت الیکٹریکل انجنیئر کی حیثیت سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا تو اُس وقت وہ کمپنی کی چند ایک خواتین الیکٹریکل انجنیئروں میں سے ایک انجنیئر تھیں۔ آج ہمدان ای ڈی سی او کی ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ وہ اس ترقی کا سہرا کڑی محنت اور صنعتوں میں خواتین کو متعارف کرانے کے Engendering Industries نامی امریکی پروگرام کے سر باندھتی ہیں۔ امریکی مدد سے چلنے والے اس پروگرام کا مقصد مردوں کے غلبے والے شعبوں میں عورتوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔
امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کے صنعتوں میں خواتین کو متعارف کرانے کے ‘اینجینڈرنگ انڈسٹریز’ ایک کامیاب پروگرام ہے اور اس کا شمار اُن بہت سے پروگراموں میں ہوتا ہے جن کی پیروی کرنے کا بائیڈن-ہیرس انتظامیہ کا یا تو منصوبہ ہے یا اسے امریکہ کی عورتوں کی عالمگیر اقتصادی سلامتی کی پہلی پالیسی کے تحت دنیا میں پھیلانا ہے۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 4 فروری کو محکمہ خارجہ کی ایک تقریب کے دوران اِس منصوبے کی تفصیلات بتائیں۔ اِس موقع پر انہوں نے کہا کہ “ہم جو حکمت عملی پیش کر رہے ہیں اس کا محور ایک سادہ سا تصور ہے یعنی ایک ایسی دنیا کی تشکیل جس میں ہر جگہ تمام عورتیں اور لڑکیاں معاشی ترقی اور عالمی خوشحالی میں اپنا حصہ ڈال سکیں اور اِن سے فائدہ اٹھا سکیں۔”
یہ حکمت عملی صنفی مساوات اور انصاف سے متعلق 2021 میں جاری کی جانے والی امریکہ کی قومی حکمت عملی کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور اس کے مقاصد کو فروغ دیتی ہے۔ 2021 میں جاری کی جانے والی قومی حکمت عملی کا مقصد امریکہ اور دنیا بھر میں صنفی اںصاف کو فروغ دینا ہے۔
کامیاب پروگراموں کو وسعت دینا
اس اقتصادی حکمت عملی کے مندرجہ ذیل چار اجزاء ہیں:-
معیاری ملازمتوں کے ذریعے معاشی مسابقت کو فروغ دینا: اِس حکمت عملی کے تحت یہ کام کرنے کا ایک طریقہ WE-Champs جیسے پروگرام ہیں۔ اِن پروگراموں کے تحت یورپ کے 18 ممالک میں عورتوں کے ایوانہائے تجارت اور کاروباری انجمنوں کو تکنیکی مدد اور تربیت فراہم کی جائے گی تاکہ خواتین کے ملکیتی چھوٹے کاروباروں کی مدد کی جا سکے۔
بچوں اور بزرگوں کی نگہداشت کو بہتر بنانا اور گھریلو کام کی قدر کرنا: امریکہ عالمی بنک کے بچوں کی دیکھ بھال کے ‘انویسٹ ان چائلڈ کیئر’ جیسے پروگراموں کی مدد کرتا ہے۔ اِن پروگراموں کے ذریعے پوری دنیا کے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بچوں کی معیاری اور سستی دیکھ بھال تک رسائی کو بہتر بنانے میں مدد کی جاتی ہے۔
خواتین کی کاروباری نظامت کاری کو فروغ دینا: اِس حکمت عملی کے تحت خواتین کو اقتصادی لحاظ سے با اختیار بنانے کے لیے امریکہ اور بھارت کے اتحاد جیسے پروگراموں کی پیروی کی جائے گی۔ یہ اتحاد بھارتی خواتین کو تکنیکی مہارتوں اور نیٹ ورکنگ کے مواقع فراہم کرنے کے لیے نجی شعبے اور سول سوسائٹی کو جوڑتا ہے تاکہ اِن خواتین کی اپنے کاروباروں کو وسعت دینے میں مدد کی جا سکے۔ 2021 میں اِس اتحاد کے آغاز کے موقع پر ‘گوگل انڈیا’ نے 10 لاکھ بھارتی کاروباری نظامت کار خواتین کی سرپرستی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
نظاماتی رکاوٹوں کو ختم کرنا: ان رکاوٹوں میں سب کے لیے یکساں مواقعوں کے اصول کی راہ میں حائل سماجی، قانونی اور ضابطوں کی رکاوٹیں شامل ہیں۔ خواتین کے مخصوص پیشوں میں کام کرنے کو مشکل بنانے اور اُن کے اپنے پیشوں میں ترقی کے امکانات کو محدود کرنے والے قوانین اِن رکاوٹوں کی چند ایک مثالیں ہیں۔
Today’s release of the Women’s Economic Security Strategy marks a milestone for our nation’s foreign policy. We are committed to seeing to it that women and girls in all their diversity can equally contribute to and benefit from economic growth. pic.twitter.com/qqJnQSyJdU
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) January 4, 2023
‘اینجینڈرنگ انڈسٹریز’ نامی پروگرام کو توسیع دینا
اِس حکمت عملی کے تحت یو ایس ایڈ کے صنعتوں میں خواتین کی شمولیت کے ‘اینجینڈرنگ انڈسٹریز’ نامی پروگرام کو توسیع دی جائے گی۔ اس پروگرام کے تحت توانائی اور پانی کے شعبوں سمیت مردوں کے غلبے والی صنعتوں میں صنفی مساوات میں اضافہ کرنے کے لیےاس وقت 27 ممالک میں 41 تنظیموں کی مدد کی جا رہی ہے۔ یہ وہی پروگرام ہے جس میں ریم ہمدان اور ای ڈی سی او نے شرکت کی۔
یو ایس ایڈ کی ایڈمنسٹریٹر سمنتھا پاور نے اِس تقریب میں بتایا کہ جب سے ہمدان نے ‘اینجینڈرنگ انڈسٹریز’ پروگرام کے ساتھ شراکت کاری شروع کی ہے تب سے ای ڈی سی او میں خواتین ملازمین کی تعداد میں 21% اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یو ایس ایڈ “دنیا بھر میں کاروباروں میں یعنی زرعی کاروبار سے لے کر انفارمیشن ٹیکنالوجی تک ہر ایک [شعبے] میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کی خاطر” ‘اینجینڈرنگ انڈسٹریز’ اور اِس جیسے دیگر پروگراموں کو وسعت دے گا۔
بلنکن نے کہا کہ “خواتین کی معاشی سلامتی کو فروغ دینا درست کام ہے اور ایسا کرنا عقلمندی کے ساتھ ساتھ ایک ضروری کام بھی ہے۔”