
امریکی عورتوں کے ووٹ کی تاریخ کو امریکہ کی 50 ریاستوں کے بچے کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
امریکی آئین میں انیسویں ترمیم کی توثیق کا، جس کے تحت عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ملا، سو سالہ جشن منانے کے لیے وائٹ ہاؤس نے عورتوں کے حق رائے دہی کی تحریک سے متعلق آرٹ کے ایک مقابلے کا اہتمام کیا۔ اس مقابلے میں 18 سال سے کم عمر کے بچوں اور نوجوانوں میں سے کوئی بھی اس تحریک سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد، علامات یا واقعات کو بصری شکل میں جمع کرا کر شامل ہو سکتا ہے جن کا تعلق عورتوں کے حق رائے دہی کی تحریک سے رہا ہو۔
عورتوں کی حق رائے دہی کی تحریک نے مقامی اور قومی انتخابات میں عورتوں کے ووٹ دینے کے حق کے لیے جنگ کا آغاز انیسویں صدی میں کیا۔ اس میں پہلی فتح 26 اگست 1920 کو انیسویں ترمیم کی توثیق کی شکل میں حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں سفید فام عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ملا۔ یہ فتح 100 برس پہلے ہمارے ملک کے بنیادی آدرشوں کا جزوی حصول تھا۔ ان کا کلی حصول 1965 میں ممکن ہوا جب نسل، ووٹ دینے کی اہلیت سے قطع نظر، تمام عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ملا۔

خاتون اول کے دفتر کی شراکت سے، وائٹ ہاؤس میں تاریخی اشیاء کے مہتم کے دفتر نے 50 ریاستوں میں سے ہر ایک ریاست اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سے ایک ایک نوجوان آرٹسٹ کو “تحریک کو بڑھاوا دینا: امریکی نوجوانوں کا عورتوں کو رائے دہی کے حق کے ملنے کا 100 سالہ جشن منانا” کے عنوان سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی نمائش کے لیے منتخب کیا۔

24 اگست کو نمائش کی افتتاحی تقریب میں خاتونِ اول، میلانیا ٹرمپ نے کہا، “عورتوں کی حق رائے دہی کی تحریک سے جلائے گئے ترقی کے چراغوں کی وجہ سے ہم سب اُن اہم کامیابیوں کا انتظار کرنا جاری رکھ سکتے ہیں جو ہمارے معاشرے کی ہر عمر کی عورتیں حاصل کرنے جا رہی ہیں۔”
نمائش کے لیے منتخب کیے جانے والے فن پارے آرٹ کے حوالے سے اس تحریک کے ایک بڑے سلسلے کو پیش کرتے ہیں۔ جہاں کچھ لوگوں نے آئیڈا بی ویلز اور ایلس پال جیسی شخصیات کی یاد مناتے ہوئے، عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکنوں کے تنوع کا اظہار کیا ہے وہیں دوسروں نے اس تحریک کی نمائندگی تجریدی آرٹ کے ذریعے کی ہے۔
نسل سے قطع نظر، تمام عورتوں کا ووٹ دینے کا حق، اور جمہوریت کا جشن منانا، اِن فن پاروں کے متحد کرنے والے مرکزی خیال ہیں۔۔
خاتونِ اول، میلانیا ٹرمپ نے کہا، “عورتوں کی حیثیت سے ہمیں با اختیاری کا اپنا سب سے بڑا ہتھیار— یعنی اپنی آوازیں، استعمال کرنا ہر صورت میں جاری رکھنا چاہیے۔”