غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے بلنکن کا دنیا کے ممالک کو اکٹھا کرنا

ہاتھوں میں آٹے کا تھیلا پکڑے ہوئے دکان میں کھڑی دو عورتیں (© Farah Abdi Warsameh/AP Images)
ایک عورت مئی میں صومالیہ کے شہر موگا دیشو میں ایک دکاندار سے گندم کا آٹا خرید رہی ہے۔ صومالیہ کا یوکرین اور روس کی گندم پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ پورے افریقہ میں لوگ گندم کے آٹے کی تقریباً 45% زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں کیونکہ یوکرین میں روس کی جنگ نے بحیرہ اسود سے برآمدات روک دی ہیں۔ (© Farah Abdi Warsameh/AP Images)

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 24 جون کو دنیا کے ممالک پرعالمگیر غذائی  سلامتی کے تحفظ کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنے پر زور دیا۔ اُن کے بقول یوکرین پر روس کے بھرپور حملے سے غذائی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

بلنکن نے برلن میں “عالمگیر غذائی سلامتی کے لیے متحد ہونے” کے عنوان سے منعقد کی جانے والی کانفرنس میں کہا، “مزید ممالک کو فوری انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر نئے، خاطر خواہ تعاون کے ساتھ قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔”

اقوام متحدہ کے مطابق 2021 میں ایک اندازے کے مطابق غذائی عدم سلامتی کے سنگین حالات میں رہنے والے افراد کی تعداد 193 ملین شمار کی گئی۔ عالمی بنک کے مطابق 2022 کے آخر تک روس کے یوکرین پر حملے کے بعد عالمی سطح پر مزید 40 ملین افراد سنگین غذائی عدم سلامتی اور غربت کا شکار ہوسکتے ہیں۔

کریملن کا “خوراک کو بطور ہتھیار” استعمال کرنا

وزیر خارجہ نے کہا کہ روس بحیرہ اسود کے ذریعے یوکرینی اناج کی برآمدات کو روک کر بحران میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 25 ملین ٹن اناج یوکرین کے اناج کے گوداموں میں پڑا ہوا ہے اور اگر اسے جلد برآمد نہ کیا گیا تو یہ اناج خراب ہو جائے گا۔

روس یوکرین کے کھیتوں کو بھی تباہ کر رہا ہے، اناج چوری کر رہا ہے اور دوسرے ممالک کو اس کی برآمدات کو روک رہا ہے۔

بلنکن نے کئی ایک اقدامات کا خاکہ پیش کیا اور کہا کہ دنیا کے ممالک کو مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے چاہیے:-

  • انسان دوست تنظیموں کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں۔
  • یوکرین کی بندرگاہوں کی روسی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کریں۔
  • زیادہ کھاد بنائیں۔
  • اناج اور کھاد کی برآمدات پر عائد پابندیاں ختم کریں۔
  • دنیا بھر میں اناج کی ترسیل میں اضافہ کریں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ نے 24 فروری کے حملے کے بعد جب روس پر پابندیاں عائد کیں تو امریکہ نے جان بوجھ کر زرعی اشیا اور کھاد کے ساتھ ساتھ ان مصنوعات کو منتقل کرنے کے لیے درکار انشورنس اور شپنگ کو [اِن پابندیوں] سے مستثٰی رکھا تاکہ “خوراک کے بحران کو مزید خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔”

 

صرف ایک ملک یوکرین کو خوراک اور کھاد باہر بھجوانے سے  روک رہا ہے، اور وہ ہے روس۔”

~ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن

امریکہ اپنے حصے کا کام کر رہا ہے

مئی میں  بلنکن نے خوراک کے بحران پر مزید اجتماعی کارروائی کرنے کے لیے پرزور حمایت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس اور ایک وزارتی اجلاس بلایا۔ ان اجلاسوں میں ممالک نے ایک ایسا “عالمی روڈ میپ” تیار کرنے پر اتفاق کیا جو دنیا کے ممالک کو دنیا بھر کے لوگوں تک خوراک، جس کی اِن لوگوں کو ضرورت ہے، پہنچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا پابند بناتا ہے۔ اس روڈ میپ پر 94 ممالک نے دستخط کیے۔

فروری کے حملے کے بعد سے اب تک امریکی حکومت نے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے ہیں:-

  • دنیا بھر میں غذائی سلامتی اور انسانی امداد کو مضبوط بنانے کے لیے 5.5 ارب ڈالر کے نئے فنڈ کی منظور کیے۔
  • افریقہ، مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ کے عالمی خوراک کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کے لیے 2.8 ارب ڈالر کی ہنگامی خوراک کی امداد کا وعدہ کیا ۔
  • کھاد کی ملکی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لیے 500 ملین ڈالر کا وعدہ کیا گیا ہے اور کارکردگی میں اضافے اور متبادلات تلاش کرنے  کے لیے نئی تحقیق کے لیے 100 ملین ڈالر جمع کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

28 جون کو صدر بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکہ آنے والے تین ماہ میں خوراک کی ہنگامی امداد کی شکل میں 2 ارب  ڈالر اور زرعی ترقی کو فروغ دینے اور بحران کے شکار ممالک میں بھوک اور غذائیت کی کمی سے نمٹنے کے لیے اضافی 760 ملین ڈالر وقف کرے گا۔

وزیر خارجہ نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ خوراک کا جاری بحران خاندانوں کو خوراک کی تلاش میں خطرناک راستوں پر طویل سفر کرنے جیسے مشکل فیصلوں کی طرف لے جا رہا ہے۔

بلنکن نے کہا،  “ہم مصائب کو دیکھ رہے ہیں اور ہمیں علم ہے کہ ہم اس کے بارے میں کچھ کر سکتے ہیں۔ تو آئیے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔”