
دنیا کے بہت سے حصوں میں خوراک ایک ضروری مگر قلیل وسیلہ ہے۔ عالمی تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور کووڈ-19 کی وجہ سے پیدا ہونے والے ترسیلی تعطلوں کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہو گیا ہے۔ اِس مضمون میں موجودہ غذائی بحران پر کووڈ-19 عالمی وبا کی وجہ سے مرتب ہونے والے اثرات ایک نظر ڈالی گئی ہے۔
کووڈ-19 عالمی وبا اور اس کے نتیجے میں ملکوں میں کی جانے والی شٹ ڈاؤنوں یعنی تالہ بندیوں کی وجہ سے عالمی معیشت ہل کر رہ گئی اور دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بھوک کے بحران بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
عالمی بنک کے مطابق اِس عالمی وبا کے پھوٹنے سے پہلے بھی بھوک میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس کی کئی ایک وجوہادت تھیں جن میں تصادم، موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی خطرات بھی شامل تھے۔
اقوام متحدہ کے صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ اس وبا نے جس سے پوری دنیا میں 6.5 ملین سے زائد افراد ہلاک ہوئے، صحت عامہ، خوراک کے نظاموں اور ملازمتوں کے لیے ایسی مشکلات کھڑی کر دیں جن کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے ادارے کی ایک رپورٹ (پی ڈی ایف، 20 ایم بی) کے مطابق جیسے ہی یہ مہلک وائرس پھیلا لوگ گھروں میں بند ہوکر رہ گئے اور سرحدیں بند ہو گئیں جس کی وجہ سے تجارت میں خلل پڑا اور خوراک کی پیداوار میں کمی آئی۔
بھوک کا سامنا کرنے والوں کی روز افزوں تعداد
امریکہ کے عالمی قیادت کے اتحاد ” یو ایس گلوبل لیڈرشپ کولیشن” کے 22 اگست کے حقائق نامے میں بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق کووڈ-19 کی وجہ سے اور تالہ بندیوں کے نتیجے میں گزشتہ تخمینوں کے مقابلے میں 2030 میں 30 ملین زائد افراد کو بھوک کا سامنا ہوگا۔ اگر یہ وبا نہ پھوٹتی تو یہ اضافہ نہ ہوتا۔
عالمی بنک نے ایک سروے کیا جس سے پتہ چلا کہ وبا کے پہلے سال میں 45 ممالک کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے پاس یا تو خوراک ختم ہو رہی تھی یا انہوں نے کم مقدار میں کھانا شروع کر دیا تھا۔
امریکہ کے بیماریوں پر قابو پانے اور اِن کی روک تھام کے مراکز کی جانب سے 2020 میں لیے جانے والے ایک جائزے سے پتہ چلا کہ بہت سے امریکی شہروں میں کیے جانے والے سروے میں شامل کم آمدنی والے 41 فیصد خاندان کم پھل اور سبزیوں کھانے لگے ہیں کیونکہ لوگ سودا سلف خریدنے نہیں جا سکتے اور کووڈ-19 وبا کے دوران لوگوں کو ایسی صورت حال کا اکثر سامنا رہتا تھا۔

امریکہ اپنے حصے کا کام کر رہا ہے
غذائی عدم تحفظ کے عوامل سے نمٹنے کے لیے امریکی حکومت بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر مندرجہ ذیل اقدامات اٹھا چکی ہے:-
- عالمی سطح پر امریکہ نے فروری سے لے کر اب تک ہنگامی بنیادوں پر غذآئی تحفظ کی مد میں 6.2 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی امداد فراہم کی ہے۔ اس امداد میں شدید بھوک اور غذائیت کی کمی کا سامنا کرنے والے افریقی ممالک کو دی جانے والی امداد بھی شامل ہیں۔
- مئی میں وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس اور ایک وزارتی اجلاس بلایا تاکہ خوراک کے بحران کے بارے میں اجتماعی اقدامات کو مزید تیز کرنے میں مدد مل سکے۔ اِن اجلاسوں کے نتیجے میں میں عالمی غذائی تحفظ کا روڈ میپ سامنے آیا جس پر 103 فریقین نے دستخط کیے۔
- جولائی میں امریکہ اور شراکت دار ممالک نے خوراک اور دیگر مصنوعات کی کمی کا باعث بننے والی رکاوٹوں کو کم کرنے اور روکنے کے لیے ایک ترسیلی سلسلے سے متعلق وزارتی فورم کا اجلاس بلایا۔
- وزیر خارجہ بلنکن نے بین الاقوامی شراکت داروں پر زور دیا ہے کہ وہ موسمیاتی بحران کا مقابلہ کرنے میں مدد کرنے والی ٹکنالوجیوں سمیت خوراک اور ویکسینیں مہیا کرنے اور دیگر مصنوعات کی فراہمی کے لیے درکار ترسیل کے لچکدار سلسلوں کی تیاری کے لیے مل کر کام کریں۔
- امریکہ 110 سے زائد ممالک کو کووڈ-19 ویکسین کی تقریباً 624 ملین خوراکیں بطور عطیہ دے چکا ہے اور عالمی بینک اور ڈبلیو ایچ او کے ہمراہ قائم کردہ وبائی امراض کی روک تھام، تیاری اور رسپانس فنڈ کے لیے مزید 450 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
گلوبل ایکشن پلان کے تحت امریکہ شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ دیگر اقدامات کے علاوہ کووڈ-19 کے خلاف ردعملوں میں رابطہ کاری بڑہائی جا سکے اور ویکسینوں تک رسائی میں اضافہ، طبی سامان کے رسدی سلسلے کو مضبوط بنایا جا سکے، ٹیسٹوں کی کٹیں اور علاج تک رسائی میں اضافہ کیا جا سکے اور طبی کارکنوں کی مدد کی جا سکے۔
نیویارک میں 13 سے 27 ستمبر تک چلنے والی اقوام متحدہ کی 77ویں جنرل اسمبلی میں افریقی یونین، یورپی یونین، سپین، بوٹسوانا، بنگلہ دیش اور امریکہ نے کووڈ-19 وبا کے سنگین دور کو ختم کرنے سمیت غذائی تحفظ اور عالمی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے عالمی رہنماؤں کے اجلاسوں کی مشترکہ میزبانی کی۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس-گرین فیلڈ نے 5 اگست کو کہا کہ “گو کہ یہ ہے تو انہتائی اہم مگر ہم صرف بھوکے لوگوں کو کھانا فراہم کرنے پر اکتفا نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس بھوک کا سبب کیا ہے اور کون سی چیز غذائی عدم تحفظ کی بنیادی وجہ بن رہی ہے۔”