دنیا بھر میں سائنسدان باریک بینی سے یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ایسے پودوں سے اگائی جانے والی غذا کا استعمال صحت کے لیے مفید ہے جو کیڑے مکوڑوں اور جڑی بوٹیوں کے خلاف مزاحمت رکھتے ہوں اور ان سے زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہو۔
اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔
مگر بہت سے ممالک نے کسانوں کے ایسی فصلیں اگانے اور مخففاً جی ایم او کہلانے والی جنیاتی طور پر تبدیل شدہ نامیاتی اجزا سے بنی غذاؤں کی درآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ان میں یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔
ڈھیروں ثبوت موجود ہونے اور نوبیل انعام یافتہ ماہرین کے اصرار کے باوجود یہ ممالک اپنی روش پر قائم ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں کروڑوں لوگ بھوکے ہیں اور ان حالات میں زرعی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے۔
سائنسی علوم، انجینئرنگ اور طب سے متعلق قومی اکیڈمیوں کے جائزے سے یہ سامنے آیا ہے کہ ”جینیاتی انجینئرنگ کے انسانی آبادی پر کسی طرح کے ایسے منفی اثرات کا ثبوت نہیں ملا جن کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے” اور اس حوالے سے ماحولیاتی مسائل جنم لینے کی بھی کوئی شہادت سامنے نہیں آئی۔
فرانس، برطانیہ اور درجنوں دوسرے ممالک میں بھی سائنسی حلقے اسی ہی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ ربع صدی پر پھیلی تحقیق کا جائزہ لینے کے بعد یورپی کمیشن نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بائیو ٹیکنالوجی روایتی نباتاتی افزائش سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔
مختلف قوانین
بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے فصلیں اگانے میں امریکہ دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے عموماً سویابین، مکئی اور کپاس اگائی جاتی ہے۔ یورپ میں بہت سے ممالک مویشیوں کے لیے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ چارہ درآمد کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کسانوں کو بائیو انجینئرنگ کے ذریعے انسانی استعمال کے لیے فصلیں اگانے کی ممانعت ہے۔ یورپ میں تحفظ خوراک کے ادارے نے سویابین کی بعض تبدیل شدہ اقسام کی اجازت دے رکھی ہے تاہم تمام اقسام اگانے کی اجازت نہیں ہے۔ وہاں تیارشدہ خوراک میں شامل ‘جی ایم او’ اجزا کی لیبل پر نشاندہی کرنا لازمی ہے۔ (امریکہ بھی لیبل کی اس شرط کو باقاعدہ اداراتی شکل دے رہا ہے۔)
کانگریس کی ریسرچ سروس کے مطابق چین اور بعض دیگر ممالک بھی ایسی غذا پر پابندیاں عائد کرتے ہیں مگر اس حوالے سے یورپی یونین کے قوانین “سب سے زیادہ سخت ہیں۔”

‘ایگری بائیوٹیک ایپلی کیشنز’ کے حصول سے متعلق انٹرنیشنل سروس کے مطابق 2017 میں 67 ممالک نے بائیوٹیکنالوجی سے تیار شدہ فصلیں استعمال کیں اور 24 ممالک نے انہیں 190 ملین ہیکٹر رقبے پر کاشت کیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔
بائیوٹیک کی افریقی کاروباری کمپنیاں، سرمایہ کار اور حکومتی وزرا جنوبی افریقہ میں ڈربن کے مقام پر 27 تا 29 اگست تک اکٹھے ہو رہے ہیں تاکہ خشک سالی کا مقابلہ کرنے والی فصلیں اور نئی ویکسینیں تیار کرنے کی خاطر بائیو ٹیکنلوجی کے استعمال کو فروغ دیا جا سکے۔
یورپی یونین کے نقاد کہتے ہیں کہ اس کے کڑے قوانین دراصل براعظم میں ایک کروڑ دس لاکھ کسانوں کو مسابقت سے محفوظ رکھنے کی کوشش ہیں۔ مشاورتی کاروبار ‘گلوبل ایگری ٹرینڈز’ کے بانی بریٹ سٹیوارٹ کا کہنا ہے، ”چھوٹے چھوٹے کھیتوں کے مالک کسان پیداواری لاگت برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر آپ ان کسانوں کی کاشتکاری کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اِن کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔”
پودوں کی دوغلی اقسام سے ‘کرسپر’ تک
ماہرین حیاتیات بہتر فصلوں کے لیے طویل عرصے سے پودوں کی دوغلی افزائش کرتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے کیڑے مکوڑوں اور جڑی بوٹیوں کی روک تھام کے لیے مختلف اقسام کے پودوں کی خصوصیات متعارف کرانے کے لیے 1980 کی دہائی سے جینیاتی انجینئرنگ سے کام لینا شروع کیا۔
طب کے شعبے میں آج اسی نوع کی ہونے والی سائنسی پیشرفتیں زرعی شعبے میں بھی انقلاب لا سکتی ہیں۔ مخففاً ‘کرسپر’ کہلانے والی ‘کلسٹرڈ ریگولرلی انٹرسپیسڈ شارٹ پیلنڈرومک ریپیٹس’ نامی تکنیک کے تحت سائنسدان کسی دوسرے پودے سے جینز مستعار لیے بغیر کسی بھی پودے کی ذاتی جینز کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے محکمہ زراعت کا کہنا ہے کہ وہ ‘کرسپر’ پودوں کو بھی روایتی طریقے سے اگائے جانے والے پودوں جتنی ہی اہمیت دے گا۔
تاہم یورپی یونین کی اعلٰی عدالت نے 25 جولائی کو فیصلہ سنایا ہے کہ جنیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں پر وہی کڑے قوانین لاگو ہوں گے جو پرانے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ اُن پودوں پر لاگو ہوتے ہیں جنہوں نے کسی دوسری قسم کے پودے سے ڈی این اے مستعار لیا ہو۔ ‘کرسپر’ کے بانی اور نارتھ کیرولائنا سٹیٹ یونیورسٹی میں غذائی سائنس دان روڈلف بیرنگو کہتے ہیں کہ ‘جی ایم او’ کے مخالف گروہوں اور “بڑی بڑی زرعی کمپنیوں” کے خلاف بداعتمادی سے یورپ میں سائنس کے بارے میں پیدا ہونے والی عوامی بدگمانی کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں۔
بیرنگو کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی آج 7.6 ارب تک جا پہنچی ہے جو 2050 تک بڑھکر 10 ارب ہو جائے گی۔ ہمارے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اس آبادی کو پہلے سے کم قابل کاشت رقبے اور کم پانی کے ذریعے خوراک مہیا کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ہرممکنہ حد تک بہترین سائنس اور ٹیکنالوجی درکار ہے۔
یہ مضمون ایک مختلف شکل میں 12 جولائی کو شائع کیا جا چکا ہے۔