امریکی محققین کی ایک ٹیم کے مطابق، مصنوعی سیارچے ان علاقوں کے بارے میں معلومات فراہم کرکے جہاں امداد کی اشد ضرورت ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ دنیا بھر میں غربت کے خاتمے میں مدد کرسکیں۔
کیلی فورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی سیارچوں سے موصول ہونے والی تصویروں سے غربت کے خلاف جدوجہد میں مصروف حکومتوں اور فلاحی تنظیموں کی مدد کی جا سکے گی کیونکہ اِن کے پاس قابل اعتماد اطلاعات نہیں ہوتیں کہ غریب لوگ کہاں رہتے ہیں اور انہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے گزشتہ سال جو دیرپا ترقیاتی اہداف منظورکیے تھے ان میں سے ایک ہدف 2030ء تک دنیا میں شدید غربت کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ شدید غربت کا شکار وہ لوگ ہیں جو 1 ڈالر 25 سینٹ [امریکی ڈالر] یومیہ سے بھی کم پر گزارہ کرتے ہیں۔
سٹینفورڈ کی ٹیم نے کمپیوٹر پر ریاضی کےا یک فارمولے کے ذریعے دنیا کا ایک ایسا نقشہ تیار کیا ہے جو خود بخود اپ ڈیٹ ہوتا رہتا ہے۔ سٹینفورڈ میں ارضی نظام کی سائنس کے شعبے کے اسسٹنٹ پروفیسر، مارشل برک کا کہنا ہے کہ یہ نقشہ ایک قسم کی مصنوعی ذہانت کے ذریعے، جسے مشینی ادراک کہا جاتا ہے، غربت کی علامتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ دوسالہ تحقیقی رپورٹ، سائنس نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
برک کا کہنا ہے، ’’کمپیوٹر ایسی بہت سی باتوں کا پتہ چلا لیتا ہے، جن کا تعلق ہمارے خیال میں غربت سے ہوتا ہے مثلاً سڑکیں، شہری آبادی کے علاقے، زرعی اراضی اور آبی گزرگاہیں وغیرہ۔‘‘
برک نے بتایا کہ ہماری ٹیم کا دنیا بھرمیں غربت کا ایک ایسا نقشہ بنانے کا منصوبہ ہے جو تمام لوگوں کو آن لائن دستیاب ہوگا۔
برک نے کہا، ’’ہمیں امید ہے کہ ہمارا ڈیٹا دنیا بھر کی حکومتوں کو براہ راست فائدہ پہنچائے گا … جس کے نتیجے میں وہ زیادہ موثر طریقے سےاپنے پروگراموں کو چلا سکیں گی۔‘‘
محققین کی طرف سے مسائل کو حل کرنے کی خاطر مصنوعی سیارچوں کے استعمال کے مختلف طریقوں کی تلاش میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس تلاش میں سمندر میں خلاف قانون ماہی گیری کے بیڑوں کا پتہ چلانے اور قدرتی آفات کی پیش گوئی کرنے میں سیارچوں کا استعمال بھی شامل ہے۔