غیرقانونی ماہی گیری سے خوراک کی ترسیل اور ذرائع معاش خطرے میں

امریکی کوسٹ گارڈ کا ایک ہیلی کاپٹر مچھلیاں پکڑنے والے ایک جہاز کے اوپر پرواز کر رہا ہے۔ (U.S. Coast Guard/Petty Officer Jonathan R. Cilley)
امریکی کوسٹ گارڈ کا ایک ہیلی کاپٹر ایک مشکوک بحری جہاز کے اوپر پرواز کر رہا ہے جس کے بارے میں غیرقانونی طور پر مچھلیاں پکڑنے کا شبہ ہے۔ (U.S. Coast Guard/Petty Officer Jonathan R. Cilley)

امریکہ پوری دنیا میں غیرقانونی ماہی گیری کا خاتمہ کرنے، مچھلیوں کی دن بدن گھٹتی ہوئی آبادیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور دنیا کے ماہی گیروں کے ذرائع معاش کا تحفظ کرنے کا عزمِ نو کر رہا ہے۔

امریکہ کے خارجہ اور تجارت کے محکموں اور دیگر بے شمار وفاقی اداروں نے جون میں ایک ایسے قانون کو نافذ کرنے کی کوششوں کی ابتدا کی ہے جو عالمی سطح پر غیر قانونی، بلا اطلاع  اور بے ضابطہ  (آئی یو یو) ماہی گیری سے نمٹنے کی “حکومت کی اجتماعی” پالیسی کو  فروغ دیتی ہیں۔

دسمبر میں منظور کیا گیا ‘سمنددری سلامتی اور ماہی گیری کے ضوابط کے نفاذ کا قانون،’ امریکہ کے سفارتی اور قانون کا نفاذ کرنے والے محکموں کو اس کا پابند بناتا ہے کہ اُن علاقوں میں  آئی یو یو ماہی گیری کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی استعداد بڑھانے کی کوششیں کی جائیں جہاں اس قسم کی ماہی گیری زوروں پر ہے۔

7 مئی کو صدر ٹرمپ نے ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا جس میں آئی یو یو ماہی گیری کو ختم کرنے کے قوم کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے اور قانون کے زیادہ سے زیادہ نفاذ کا کہا گیا ہے۔

ٹرمپ نے کہا، “غیر قانونی، بلا اطلاع  اور بے ضابطہ ماہی گیری سمندری خوراک کے امریکی اور عالمگیر خزانوں کی پائیداری کو نقصان پہنچاتی ہے، عام ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات ڈالتی ہے، قانون کی پابندی کرنے والے ماہی گیروں اور دنیا بھر میں خوراک کی صنعت کے ساتھ غیرمنصفانہ مسابقت پیدا کرتی ہے۔”

یہ حکم نامہ امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کے غیر قانونی، بلا اطلاع  اور بے ضابطہ ماہی گیری کو روکنے، حوصلہ شکنی کرنے اور ختم کرنے کے ریاستی بندرگاہوں کے اقدامات کے معاہدے کے نفاذ کو مضبوط بنائے۔ غیرقانونی طور پر پکڑی گئی مچھلی کو عالمی منڈی میں داخل ہونے سے روکنے والے اس معاہدے کے 65 بین الاقوامی فریق ہیں۔

صدر کا حکم نامہ آئی یو یو ماہی گیری کو ختم کرنے کی امریکہ کی طویل عرصے سے جاری کوششوں کو آگے بڑہاتا ہے۔ آئی یو یو ماہی گیری سے دنیا بھر کے اُن تین ارب افراد کا ذریعہ معاش خطرے میں پڑ گیا ہے جو اپنے روزگار یا خوراک کے لیے ماہی گیری پر انحصار کرتے ہیں۔

 امریکی کوسٹ گارڈ کا ایک جہاز دو ماہی گیر جہازوں کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے اور پیش منظر میں ایک "ریسپانس بوٹ" دکھائی دے رہی ہے (U.S. Coast Guard/Petty Officer Jonathan R. Cilley)
امریکی کوسٹ گارڈ کے ایک جہاز نے بحرالکاہل میں ماہی گیری کے غیرقانونی آلات استعمال کرنے کے شک میں دو غیرملکی جہازوں کو اپنے قبضے میں لیا۔ (U.S. Coast Guard/Petty Officer Jonathan R. Cilley)

دنیا بھر میں پائیدار ماہی گیری میں مدد کرنے اور سمندری ماحولوں کو محفوظ بنانے کے لیے امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ (یو ایس ایڈ) کم و بیش 15 ممالک میں 33 ملین ڈالر سے زیادہ سالانہ خرج کرتا ہے۔

اکتوبر میں یو ایس ایڈ نے بحرہ الکاہل کے جزیر نما ممالک کے مخصوص اقتصادی زونوں میں آئی یو یو ماہی گیری کو ختم کرنے میں مدد کے لیے 7.5 ملین ڈالر کی رقم مختص کی۔ یو ایس ایڈ نے فلپائن کے ماہی گیروں کو نگرانی کرنے والے آلات خریدنے کے لیے رقومات فراہم کیں۔ ان آلات کو استعمال کرکے وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اُنہوں نے مچھلیاں قانونی طور پر پکڑی ہیں جس کے نتیجے میں وہ  انہیں بین الاقوامی منڈی میں آسانی سے بیچ سکتے ہیں۔

اس کے باوجود آئی یو یو ماہی گیری ایک مستقل مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ایف اے او نے اندازہ لگایا ہے کہ آئی یو یو ماہی گیری سے ہر سال 26 ملین ٹن مچھلی پکڑی جا سکتی ہے۔ آئی یو یو ماہی گیری سے بغیر لائسنس کے مچھلیاں پکڑنے، چھوٹی یا معدومی کے خطرے کی شکار مچھلیاں پکڑنے،  یا مچھلیوں کو بڑے بڑے مال بردار بحری جہازوں پر غیرقانونی طور پر منتقل کرکے قانونی کی خلاف ورزیاں کی جا سکتی ہیں۔

اگست میں ایکویڈور نے 260 بحری جہازوں کے ایک بیڑے پر اعتراض کیا۔ اس بیڑے میں زیادہ تر چینی جہاز تھے۔ یہ جہاز دنیا کے متنوع ترین سمندری نظاموں میں شمار ہونے والے گلاپاگوس جزائر کے قریب بین لاقوامی پانیوں میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ 2017ء میں ایکویڈور نے گلاپاگوس کے سمندری مخلوق کے تحفظ کے لیے  مخصوص کیے گئے علاقے سے ایک چینی جہاز کو اپنے قبضے میں لیا جس پر 300 ٹن جنگلی حیات لدی ہوئی تھی۔ اِس میں زیادہ تر شارک مچھلیاں تھیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 2 اگست کو عوامی جمہوریہ چین سے ایسے بیڑوں کی مالی اعانت بند کرنے کا مطالبہ کیا جو غیرقانونی طور پر مچھلیاں پکڑتے ہیں اور جو ساحلی ممالک کے خودمختاری کے حقوق اور سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

.

امریکہ کی قومی بحری اور ماحولیاتی انتظامیہ (این او اے اے)  کے ماہی پروری کے عہدیداروں نے 5 جون کو کہا کہ کئی ایک ممالک غیرقانونی ماہی گیری کو روکنے کی اپنی کوششوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔

این او اے اے کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے ماہی پروری، ڈریو لالر نے کہا، “اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اپنے بیڑوں کی خود نگرانی کرنے میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ہم اگرچہ پیش رفت تو کر رہے ہیں مگر کرنے کا بہت سا کام ابھی باقی ہے۔”