غیرقانونی ماہی گیری کے سنگین اثرات

امریکی کوسٹ گارڈ اور جریدے سائنس ایڈوانسز میں چھپنے والی ایک نئی رپورٹ کے مطابق غیرقانونی ماہی گیری بحرالکاہل کے گرد  واقع ممالک کی معیشتوں، ماحول اور سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کر رہی ہے۔

اس رپورٹ کا عنوان ( Illuminating Dark Fishing Fleets in North Korea ) یعنی شمالی کوریا میں ماہی گیری کے تاریک بیڑوں کو منظرعام پر لانا ہے۔ اس رپورٹ میں بحرالکاہل کے گرد کے سمندری علاقوں میں غیرقانونی ماہی گیری کے خطرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔  واشنگٹن میں قائم “گلوبل فشنگ واچ” نامی  ایک سائنسی اور تحقیقی مرکز اور بین الاقوامی تحقیقی تنظیموں کے ایک گروپ نے مل کر یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ گلوبل فشنگ واچ کا کہنا ہے کہ “ڈارک فلیٹ” یعنی تاریک بیڑے میں شامل وہ جہاز ہوتے ہیں جو کھلے بندوں اپنا محل وقوع نشر نہیں کرتے۔ یہ حرکت اس بات کی طرف ایک عام  اشارہ ہوتی ہے کہ وہ غیرقانونی، چوری چھپے اور بے ضابطہ مخفاً (آئی یو یو) کہلانے والی ماہی گیری میں مصروف ہیں۔ “گلوبل فشنگ واچ” ماہی گیری کی عالمگیر نگرانی پر کام کرنے والی ایک تنظیم ہے۔

 پانی اور مچھلیوں سے بھری ٹوکریوں کے درمیان بیٹھے ہوئے لوگ اور پس منظر میں پانی میں کھڑی کشتیاں (© Hoang Dinh Nam/AFP/Getty Images)
ویت نام کی بندرگاہ دانانگ میں تاجر سکوِڈ مچھلیوں سے بھری ٹوکریوں کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں۔ بحیرہ جنوبی چین میں چین اور ویت نام کے درمیان ماہی گیری کے حقوق پر تنازعے کی وجہ سے ویت نامی ماہی گیروں کا نقصان ہو رہا ہے۔ (© Hoang Dinh Nam/AFP/Getty Images)

گلوبل فشنگ واچ نے شمالی کوریا کے پانیوں میں مچھلیاں پکڑنے والے چینی جہازوں کا پتہ لگانے کے لیے  مصنوعی سیاروں کی ٹکنالوجی اور مشینی علم کو استعمال کیا۔ کافی حد تک یہ ممکن ہے کہ مچھلیاں پکڑنے والے یہ جہاز اقوام متحدہ کی پابندیوں کی خلاف ورزیاں بھی  کر رہے ہوں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017 سے لے کر 2018 تک 1,600 چینی جہازوں نے اڑنے والی سکوڈ مچھلیاں لگ بھگ اتنی تعداد میں پکڑیں جتنی کہ جاپان اور جنوبی کوریا نے ملا کر پکڑیں  یعنی 160,000 میٹرک ٹن جس کی مالیت  440 ملین ڈالر سے زائد بنتی ہے۔

امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین ماہی گیری کی اپنی زیادہ تر سرگرمیوں کے لیے زرِ اعانت دیتا ہے اور یہ کہ چین اکثر ماہی گیری کے دوران ساحلی ممالک کے خود مختاری کے حقوق اور حدود کی خلاف ورزیاں کرتا ہے۔

واشنگٹن میں 20 اکتوبر کو امریکی کوسٹ گارڈ کے کمانڈنٹ، ایڈمرل کارل شلز نے بحرالکاہل میں بین الاقوامی سمندروں میں قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کی امریکی کوششوں کے بارے میں نامہ نگاروں کو آگاہی دی۔ انہوں نے اُن ممالک کے ساتھ امریکی شراکت داریوں  کو مضبوط بنانے کی بات بھی کی جن کی معیشتوں اور قومی وسائل کو نقصان پہنچانے والے ممالک کی جانب سے ماہی گیری کے اُن غیرقانونی طریقوں سے خطرات کا سامنا رہتا ہے جو وہ دنیا بھر میں اختیار کرتے ہیں۔

امریکی کوسٹ گارڈ اور گلوبل فشنگ واچ دونوں نے ہی خبردار کیا ہے کہ آئی یو یو ماہی گیری دنیا بھر میں اربوں ڈالر کے نقصانات کا باعث بنتی ہے، مچھلیوں کے ذخیروں کو کم کرتی ہے، سمندری ماحول، غذائی سلامتی اور قانونی طور پر مچھلیاں پکڑنے والی اُن کمیونٹیوں کے لوگوں کے روزگاروں کو خطرات سے دوچار کرتی ہے جن کی گزر بسر اور غذائی لحمیات کا بنیادی ذریعہ سمندری خوراک پر منحصر ہے۔

غیرقانونی رویے سے نمٹنا

شلز نے کہا کہ آئی یو یو ماہی گیری “وسیع تر معنوں میں” بالخصوص ایسی ساحلی ریاستوں کے لیے “سلامتی کی کمزوریوں کی علامت ہوتی ہے جن کی اپنی سمندری حدود میں گشت کرنے کی یا جرائم پیشہ کرداروں کو پکڑنے کی صلاحیتیں محدود ہوتی ہیں۔” عموماً آئی یو یو ماہی گیری دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کی ملی بھگت سے کی جاتی ہے۔ اس میں انسانی بیوپار اور جبری مشقت کے مظالم کے ساتھ ساتھ دیگر غیرقانونی اشیا کی سمگلنگ بھی شامل ہے۔ تاہم شلز نے کہا کہ اجتماعی کاروائیاں “ہماری اجتماعی خوشحالی کو لاحق اس خطرے” کو ختم کر سکتی ہیں۔

عوامی جمہوریہ چین کے ماہی گیر جہازوں سے گلاپاگوس جزائر کو درپیش خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شلز نے کہا کہ ہر کہیں یا جنوبی امریکہ کے سمندروں میں اس طرح کے جہازوں کا مچھلیاں پکڑنا ہمیشہ غیرقانونی نہیں ہوتا۔ تاہم، “جب یہ (ماہی گیری) بلا اجازت کسی ملک کے سمندری (حدود) میں کی جاتی ہے تو پھر مسائل پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔”

 سمندر میں ایک چھوٹا جہاز (USCG)
کوسٹ گارڈ کے چھوٹے “کٹر” جہازوں سے بحرالکاہل میں غیرقانونی ماہی گیری ختم کرنے کے لیے قانون نافذ کیا جاتا ہے اور متعلقہ عملہ دوسرے جہازوں پر جاتا ہے۔ (USCG)

ٹیبیتھا میلری واشنگٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ وہ عوامی جمہوریہ چین کی غیرملکی اور ماحولیاتی پالیسیوں کی ماہر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بیجنگ نے بہتری کے کچھ اقدامات تو اٹھائے ہیں مگر وہ کافی نہیں ہیں۔

اس سلسلے میں ” سب سے بڑی پیش رفتیں 2017ء میں ہوئیں [جب پی آر سی] نے بیڑے میں [جہازوں کی تعداد] 3،000 تک محدود کر دی۔ تاہم انہوں نے [مچھلیاں پکڑنے کی] تعداد محدود نہیں کی اور اس سال کے شروع میں انہوں نے پہلی مرتبہ آئی یو یو ماہی گیری کی زبان شامل کرنے کے لیے دور دراز پانیوں میں ماہی گیری کے قوانین میں تبدیلیاں کیں۔”

میلری نے کہا کہ یہ اقدامات 2016ء میں ارجنٹینا کے کوسٹ گارڈ کی جانب سے پی آر سی کے ایک ماہی گیر جہاز کو ڈبونے جیسے مشہور واقعات کے بعد پیدا ہونے والے بین الاقوامی دباؤ کے ردعمل میں اٹھائے گئے۔

میلری نے کہا کہ پی آر سی کی جانب سے اپنی ماہی گیری کی صنعت کو دی جانے والی زری اعانتیں پوری دنیا کی جانب سے 2018ء میں دی جانے والی زری اعانتوں کا 27 فیصد ہیں۔ “ماہی گیری کے لیے دی جانے والی زری اعانتیں اس صنعت کو اُس وقت منافع بخش بناتی ہیں جب  وہ حقیقت میں منافع بخش نہیں ہوتیں اور اس کا نتیجہ  زیادہ مقدار میں مچھلیاں پکڑنا اور آئی یو یو ماہی گیری کے صورت میں نکلتا ہے۔”

میلری نے کہا، ” یہ بات اہم ہے کہ ہر کوئی یہ مانے  کہ پائیدار ماہی گیری چین سمیت، ہر ایک کے طویل مدتی مفادات میں ہے۔”