دنیا بھر میں امریکی سفارت خانوں میں اعلٰی ترین مناصب پر ایسے سفارت کار فائز ہیں، جن کے عہدے کا موقر نام “ریاستہائے متحدہ امریکہ کا غیرمعمولی اور مختارِ کل سفیر” ہے۔
خواہ کسی نے اپنا کیریئر فارن سروس میں بنایا ہو، کاروباری دنیا میں، تعلیم و تدریس کے میدان میں یا کہیں اور، اسے صدر کا کسی دوسرے ملک میں سفیر کی حیثیت سے امریکہ کی نمائندگی کرنے کے لیے کہا جانا، اس شخص کے لیے زندگی کا ایک ممتاز کام اور عمر بھر کا اعزاز بن جاتا ہے۔
یہ کوئی ایسا منصب نہیں ہے جسے صدر اپنے تئیں خود کسی کو عطا کرسکیں۔
امریکہ کا آئین حکومت کے اعلیٰ ترین مناصب پر نامزدگیوں کے لیے، سینیٹ کو مشورہ فراہم کرنے اور ان کی منظوری دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ صدر کے نامزد کردہ فرد کے لیے سینیٹ کی اکثریتی توثیق ضروری ہے۔
سخت جانچ پڑتال
وائٹ ہاؤس کسی امیدوار کو نامزد کرنے سے پہلے، اس کی صلاحیتوں اور تجربے، مالی معاملات، پیشہ وارانہ اور ذاتی زندگی کے بارے میں سخت جانچ پڑتال کرتا ہے۔
اور یہ تو محض آغاز ہوتا ہے۔
سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی نامزد کردہ افراد کے بارے میں پہلے نجی طور پر اور پھر کھلی سماعت کے دوران چھان بین کرتی ہے۔ اگر سب کچھ درست طے پا جائے تو کمیٹی نامزدگی کی منظوری دے کراسے پوری سینیٹ کی ووٹنگ کے لیے سینیٹ کو بھیج دیتی ہے۔
تاہم کوئی بھی سینیٹر کسی فرد کی نامزدگی کو روک سکتا ہے۔ ایسا مختلف سفارتی یا پالیسی وجوہات کی بنا پر ہو سکتا ہے۔ اِن وجوہات کا امیدوار کی ذاتی صلاحیتوں یا تعلیمی قابلیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس بات سے جانچ پڑتال کے اس درجے کا پتہ چلتا ہے جس کا مستقبل کے سفیروں کو سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح ہونے والی تاخیر پریشان کن تو ہوسکتی ہے مگر یہ امریکی حکومت کی مختلف شاخوں کے مابین اُس آئینی “جانچ پڑتال اور توازن ” کا حصہ ہے، جو صدر یا کانگریس کو بہت زیادہ با اختیار بننے سے روکتا ہے۔
سینیٹ جب ایک بار چھان بین مکمل کرلیتی ہے، تو اس کے بعد توثیقی عمل تیزی سے آگے بڑہتا ہے۔ سینیٹ اپنے اجلاس کی ہر معیاد کے خاتمے سے پہلے، نامزدگیوں کے ایک پورے گروپ کی منظوری دیتی ہے۔
بیشتر سفیر طویل عرصے تک متعدد ممالک میں خدمات انجام دینے کے بعد، فارن سروس میں ترقی کرتے کرتے اس عہدے پر پہنچتے ہیں۔ خواہ وہ پہلے کسی دوسرے ملک میں سفیر ہی کیوں نہ رہ چکے ہوں، مگر ہر نامزدگی کے لیے انہیں نئے سرے سے سینیٹ کی توثیق درکار ہوتی ہے۔ صدور دیگر شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا بھی بطور سفیر نامزد کرنے کے لیے انتخاب کرتے ہیں۔ اِن نامزدگیوں میں ایسے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جن کے صدر کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں۔
روایتی طور پر70 فیصد سفیر پیشہ ور سفارت کار ہوتے ہیں اور 30 فیصد کو سیاسی بنیادوں پر اس منصب پر فائز کیا جاتا ہے۔
سفیر کی حیثیت سے بہت سے ممتاز امریکی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اگرچہ کسی امریکی صدر نے [سفیر کے] عہدے پر کام نہیں کیا، تاہم بعد میں صدر بننے والے چھ افراد نے 1893ء سے پہلے “منسٹر” کی حیثیت سے دوسرے ممالک میں امریکہ کے اعلٰی سفارت کار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ یاد رہے کہ لفظ ‘سفیر’ کا استعمال 1893ء میں شروع ہوا۔ اِس سے قبل یہ عہدہ ‘منسٹر’ کہلاتا تھا۔ ہالی وُڈ کی بچپن کی اداکارہ، شرلی ٹیمپل نے ایک طویل عرصے تک محکمہ خارجہ میں خدمات انجام دیں جس کے نتیجے میں وہ گھانا اور چیکو سلاواکیہ میں امریکہ کی سفیر رہیں۔ ماہر معاشیات، جان کینتھ گالبریتھ نے بھارت میں صدر جان کنیڈی کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
ہر سفیر بنجمن فرینکلن جیسی کارکردگی دکھانے کا آرزومند ہوتا ہے۔ بنجمن فرینکلن 1776 سے لے کر 1785 تک فرانس میں ‘منسٹر’ کی حیثیت سے تعینات رہے اور بعض اوقات انہیں ملک کا اولین سفارت کار بھی کہا جاتا ہے۔ جب اعلانِ آزادی کے اہم مصنف اور مستقبل کے صدر تھامس جیفرسن، 1785ء میں فرینکلن کی جگہ لینے کے لیے پیرس پہنچے تو فرانسیسی وزیر خارجہ نے ان سے پوچھا، ” اچھا تو یہ آپ ہیں جو ڈاکٹر [بنجمن ] فرینکلن کی جگہ آئے ہیں؟” جیفرسن نے جواب دیا، ” نہیں جناب، ان کی جگہ تو کوئی نہیں لے سکتا، میں تو محض اُن کا جانشین ہوں۔”
26 مئی 2016 کو اِس مضمون کا انگریزی متن ایک بار پہلے شائع ہو چکا ہے۔