امریکی کوسٹ گارڈ کی سرکردگی میں غیرقانونی ماہی گیری کو روکنے کے لیے ایک عالمگیر کوشش کی جا رہی ہے۔ غیرقانونی ماہی گیری سے ماحولیاتی نظاموں کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ دنیا بھر میں روزگاروں اور معیشتوں کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔
امریکی کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ ایک نئی تزویراتی حکمت عملی میں غیرقانونی، بتائے بغیر اور بےضابطہ (آئی یو یو) ماہی گیری نے سمندری سلامتی کے ایک بڑے خطرے، یعنی قزاقی کی جگہ لے لی ہے۔ اس حکمت عملی میں زیادہ شراکت کاری اور موثر نفاذ قانون کے طریقہ کار کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
آئی یو یو ماہی گیری کھلے سمندروں، اور قومی حدود کے اندر، دونوں جگہوں پر ماہی گیری کے بد دیانت طریقوں کا مجموعہ ہے۔ ایسے حالات میں جب دنیا بھر میں مچھلی کی پروٹین کی حیثیت سے طلب میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، آئی یو یو عالمی سلامتی اور خوشحالی کے لیے ایک خطرہ بنتی جا رہی ہے اور قانونی نظام کو کمزور کر رہی ہے۔
17 ستمبر کو جاری کی گئی تزویراتی حکمت عملی کی دستاویز میں امریکہ کے کوسٹ گارڈ کے کمانڈنٹ، ایڈمرل شلز کہتے ہیں، “اآئی یو یو اگر بلا روک ٹوک جاری رہی تو ہم نازک ساحلی ریاستوں کی بدحالی اور (دنیا کے) ماہی گیر ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی توقع کر سکتے ہیں جس سے دنیا بھر میں جیو پولٹیکل (ارضیاتی سیاسی) استحکام خطرات سے دوچار ہو جائے گا۔”

نئی حکمت عملی کے تحت کوسٹ گارڈ، اہداف اور انٹیلی جنس کی معلومات کی بنیادوں پر قانون کا نفاذ کر کے غیرقانونی ماہی گیری کے خاتمے کے لیے اپنی طویل عرصے سے جاری کوششوں میں بہتری لائے گا۔ سمندروں میں اچھے عالمی رویے کی ترویج کی اس کوشش سے مزید بین الاقوامی تعاون حاصل ہوگا۔
آئی یو یو ماہی گیروں سے دنیا بھر کے اُن تین ارب افراد کے روزگاروں کو بھِ خطرات لاحق ہوگئے ہیں جو اپنے روزگار یا خوراک کے لیے ماہی گیری پر انحصار کرتے ہیں۔ کوسٹ گارڈ کی حکمت عملی کے مطابق غیر قانونی ماہی گیر سالانہ 26 ملین ٹن مچھلیاں پکڑتے ہیں اور اس کے نتیجے میں قانونی ماہی گیری کو دس ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
اس حکمت عملی میں کہا گیا ہے، “اپنے فائدے کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے والے اور غیر ذمہ دار ممالک جو آئی یو یو ماہی گیری سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، جارحانہ معاشی پالیسیوں سے منڈیوں میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں، آزاد اور کھلی جمہوریتوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، سلامتی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور دنیا بھر میں خطرات سے دوچار ممالک میں عدم استحکام پیدا کرتے ہیں۔”
مثال کے طور پر، حال ہی میں ایکویڈور کے گلا پاگوس جزائر کے متنوع سمندری ماحولیاتی نظاموں کے قریب مچھلیاں پکڑنے والے بیڑے کی طرح کے عوامی جمہوریہ چین کے پرچم بردار مچھلیاں پکڑنے والے بڑے بڑے بیڑے دوسرے ممالک کی ماہی گیری اور ماحولیات کے لیے خطرات بن چکے ہیں۔
آئی یو یو ماہی گیری کے سدباب کے امریکی نصب العین میں کوسٹ گارڈ کی کاوشوں کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ (یو ایس ایڈ) ہر سال ایک درجن ممالک میں پائیدار ماہی گیری میں 33 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ یو ایس ایڈ کی مالی امداد سے نگرانی کرنے والے ایسے آلات کی فراہمی میں مدد ملی ہے جن سے ماہی گیر آسانی سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اُنہوں نے مچھلیاں قانونی طور پر پکڑی ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی مچھلیاں بین الاقوامی منڈیوں میں کسی مشکل کے بغیر فروخت کر سکتے ہیں۔
#BREAKING: A new analysis by Oceana – using @globalfishwatch – finds that nearly 300 Chinese vessels pillaged the waters off the Galapagos Marine Reserve from July 13-Aug 13, risking the ecological balance & livelihoods of the Galapagos Islands.Learn more: https://t.co/9dyJW52KiP pic.twitter.com/CwxL1Tid75
— Oceana (@oceana) September 16, 2020
کوسٹ گارڈ کی حکمت عملی میں جن علاقوں میں شراکتداروں کی آئی یو یو ماہی گیری کو ختم کرنے میں مدد کرنے کی بات کی گئی ہے اُن میں پورا مغربی نصف کرہ اور جنوبی بحرالکاہل، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ارد گرد کے دیگر جزائر پر مشتمل اوشنیا کہلانے والا وسیع علاقہ، شمالی بحرالکاہل اور بحرالکاہل کے جزیرہ نما ممالک اور ساحلی افریقہ کے علاقے شامل ہیں۔
اس کے علاوہ، کینیڈآ، جاپان اور جنوبی کوریا سمیت، امریکہ شراکت دار ممالک کے ساتھ معلومات کے تبادلے کو بھی بہتر بنائے گا۔ برے کرداروں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے، امریکہ اُن کی غیر قانونی سرگرمیوں کی تشہیر بھی کیا کرے گا۔
ایڈمرل شلز نے 17 ستمبر کو واشنگٹن میں “سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز” (تزویراتی اور بین الاقوامی مطالعاتی مرکز) کے زیر اہتمام نئی حکمت عملی پر ہونے والے ایک مباحثے کے شرکا کو بتایا، “اس (مسئلے) کا تعلق خود مختار ممالک کی اپنے جی ڈی پی کے تحفظ اور اپنے ذرائع معاش کا تحفظ کرنے سے ہے۔ آئی یو یو ماہی گیری سے متاثرہونے والے ملک کی (اپنے) وسائل کی حفاظت کرنے یا بچانے کی اُس اہلیت کو نقصان پہنچتا ہے جس کا تعلق خوراک کی پائیدار فراہمی کے مسئلے سے ہے۔”