فائیو جی کا ابھرتا ہوا وائرلیس نیٹ ورک دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دے گا۔ آپس میں باہم مربوط نئی ایپلی کیشنز کاروبار میں انقلاب برپا کردیں گی، بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنا دیں گی اور ذاتی مواصلات کے طریقوں میں تبدیلیاں لے کر آئیں گی۔
اِن نئی ایپلی کیشنوں کو ہماری زندگیوں میں مرکزی مقام حاصل ہوگا۔ لہذا اس سارے ڈیٹا کو محفوظ رکھنا پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر جائے گا۔
مگر دیکھنا یہ ہے کہ آپ اپنی نجی معلومات کی خلاف ورزیوں کے خلاف کیسے اپنا دفاع کر سکتے ہیں؟ چُرائے گئے تجارتی رازوں اور انتہائی اہم بنیادی ڈھانچے کی اکھاڑ پچھاڑ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جدید معاشرے میں دیگر تمام امور کی طرح یہاں بھی آپ کو اپنی ٹیلی کام کمپنی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
اپنی ٹیلی کام کمپنی پر بھروسہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟
صارفین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی فائیو جی سہولتیں فراہم کرنے والی کمپنی پر بھروسہ کرسکیں اور یہ کہ اُن کا ڈیٹا محفوظ ہاتھوں میں ہو اور انہیں کسی تعطل کے بغیر سروس فراہم کی جائے۔
صحافیوں سے ایک حالیہ گفتگو میں محکمہ خارجہ کے سائبر سکیورٹی کے اعلٰی سفارت کار، رابرٹ سٹریئر نے صارفین کی اس بات کے جاننے کے بارے میں وضاحت سے بتایا کہ ان کی فائیو جی ٹیلی کام کمپنی کو “کوئی غیر ملکی حکومت دباؤ میں نہ لا سکے اور اس سے یہ نہ کہہ سکے کہ وہ ]اپنے[ سافٹ ویئر اور کمپنی کے مستقل ریڈ اونلی سافٹ ویئرز کو کمزور بنائے۔”

صارفین اپنی ٹیلی کام کمپنیوں سے ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کے بارے میں تسلسل سے تازہ ترین معلومات وصول کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ مگر وہ تازہ ترین معلومات کیا ہوتی ہیں؟ سٹریئر نے اس بات کی تفصیل بتائی کہ سافٹ وِیئر کے ایک ورژن کے محفوظ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ٹیلی کام کمپنی بعد میں ایک ایسا ورژن نصب نہیں کرے گی جسے کمزور بنایا جا سکتا ہو۔
مغربی ممالک میں اپنے صدر دفاتر رکھنے والی ٹیلی کام کمپنیوں کے معاملات میں صارفین کو ڈیٹا کی چوریوں کے سلسلے میں مدد کے متبادل راستوں کے ساتھ ساتھ قانونی تحفظات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس چین میں صدر دفاتر رکھنے والی ٹیلی کام کمپنیوں کے معاملات میں صارفین کو یہ تحفظات حاصل نہیں ہوتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ایک کمپنی یہ دعوٰی کرتی ہے کہ وہ [ڈیٹا کے تحفظ کے معاملے میں] کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ فائیو جی نیٹ ورک خریدنے والے ممالک کو بامقصد امور کی بنیاد پر فائیو جی نیٹ ورک فراہم کرنے والی کمپنیوں کی جانچ پڑتال کرنا چاہیے۔ سٹریئر نے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سوالات اٹھائے:
- کیا کمپنی کا صدر دفتر ایک ایسے ملک میں واقع ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے اور عدلیہ آزاد ہے؟ یہ امور اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ کمپنی اپنے نیٹ ورک پر سمجھوتہ کرنے کے دباؤ کا سامنا کر سکتی ہے۔
- کیا کمپنی کا ملکیتی ڈھانچہ شفاف ہے؟ اس سے یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ صارفین کو علم ہوگا کہ حقیقت میں کون فیصلے کر رہا ہے۔ اس بات کا جاننا ایسے میں خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جب کسی کمپنی کو جزوی یا مکمل طور پر کوئی غیر ملکی حکومت کنٹرول کرتی ہو۔
- کیا کمپنی کی اخلاقی رویوں کی اپنی کوئی تاریخ ہے؟ ماضی کی کارکردگی یہ طے کرتی ہے کہ آیا صارفین کمپنی کے اِن دعووں پر بھروسہ کر سکتے ہیں کہ وہ [کمپنی] اپنے نیٹ ورکوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
کیا ہواوے قابل اعتبار ہے؟
ہواوے دنیا بھر میں فائیو جی نیٹ ورک تیار کرنے اور فروخت کرنے کی امید لیے ہوئے ہے۔ تاہم دنیا کے ملکوں اور صارفین کے لیے احتیاط سے کام لینے کی واضح وجوہات موجود ہیں۔
ہواوے کا صدر دفتر چین میں ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں آزاد عدلیہ یا نافذ کی جانے والی قانون کی حکمرانی کا وجود نہیں ہے۔ حتٰی کہ چین میں ایک ایسا قانون بھی ہے جو حکومت کی جاسوسی میں مدد کرنا کمپنیوں کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر چینی حکومت کسی کمپنی کو جاسوسی کرنے یا چوری کرنے کا حکم دے تو متعلقہ کمپنی کے پاس اسے چیلنج کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔
مزید برآں، اپنے مسابقت کاروں کا راز چرانے سمیت، ہواوے کی اخلاقی خلاف ورزیوں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔
سٹریئر نے بتایا، “ہواوے کی جانب سے دنیا بھر میں املاکِ دانش کی چوری اور بدعنوانیوں کے قوانین کی خلاف ورزیوں کا ایک لمبا چوڑا ریکارڈ موجود ہے۔” جب فائیو جی کی بات ہوتی ہے تو امریکہ اور اس کے حلیفوں کو “یہ امر یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس فائیو جی نیٹ ورکوں کی قابل اعتبار کمپنیاں موجود ہوں۔”