آئندہ سال ففتھ جنریشن (فائیو جی) وائرلیس ٹکنالوجی مستقبل کی معیشتوں اور عوامی سہولیات کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرنے جا رہی ہے۔ یہ موبائل فونوں سے لے کر خود کار طریقے سے چلنے والی کاروں اور بجلی کے گرڈوں اور پانی کے نظاموں جیسی انتہائی اہم سہولیات تک ہماری زندگی کے ہر ایک شعبے پر اثرانداز ہوگی۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کے سائبر سے متعلقہ امور کے سفارت کار رابرٹ سٹریئر کہتے ہیں، “فائیو جی نیٹ ورکوں پر انحصار کرنے والی اِن تمام اہم سہولتوں کی موجودگی میں، اِن نیٹ ورکوں کے تحفظ پر جتنا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔”

بدقسمتی سے، فائیو جی کے لیے درکار نیا بنیادی ڈھانچہ کسی بھی ملک کی قومی سلامتی کو خطرے سے دوچار کر سکتا ہے۔ ایک بڑا خدشہ کسی ایسی کمپنی کے نصب کردہ آلات ہیں جس پر کسی غیرملکی حکومت کو یا تو اختیار حاصل ہوگا یا وہ اُسے اپنے حق میں استعمال کر سکے گی۔

سمارٹ سٹی کی شبیہہ پر فائیو جی نیٹ ورک کا بنیادی ڈھانچہ۔ (State Dept./S. Gemeny Wilkinson )
(State Dept./S. Gemeny Wilkinson )

اسی لیے صدر ٹرمپ نے 15 مئی کو اُس انتظامی حکم نامے پر دستخط  کیے جس کے تحت امریکی کمپنیوں پر کسی بھی ایسی  کمپنی کے مواصلاتی آلات یا خدمات کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے جس کمپنی سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔

اس ضمن میں ٹیلی کام کے آلات و خدمات مہیا کرنے والی چینی کمپنیوں کا ذکر کیا جانا ضروری ہے کیونکہ یہ کمپنیاں چینی حکومت اور اس کے جاسوسی کے اداروں کے مفادات کے لیے کام کرنے کی پابند ہیں۔ اگر ہواوے یا آلات بنانے والی کوئی بھی دوسری چینی کمپنی کسی ملک میں فائیو جی کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرتی ہے تو پھر اِن نیٹ ورکوں پر چینی حکومت کے اختیار حاصل کیے جانے کا قوی امکان موجود رہے گا۔

Graphic and text on implications of Chinese ownership of 5G companies (State Dept./S. Gemeny Wilkinson/Photo: © Shutterstock)
(State Dept./S. Gemeny Wilkinson/Photo: © Shutterstock)

سٹریئر نے ٹی وی چینل پی بی ایس کے ” نیوز آور” نامی پروگرام میں بتایا، “حقیقت میں نجی شعبے کی کمپنیوں اور چینی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے۔” چینی حکومت [اپنے لیے] “کام کرنے پر اِن کمپنیوں کو مجبور کر سکتی ہے۔ … وہ مکمل طور پر براہ راست چینی کمیونسٹ پارٹی کی احکامات کے تابع ہوتی ہیں۔”

خفیہ طور پر ریکارڈنگ کرنا یا اس سے بھی بدتر

ڈیٹا کے ذریعے مہیا کی جانے والی خدمات میں خلل ڈالنے یا خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی نیت سے کوئی بھی ناقابل اعتبار کمپنی کسی دوسرے ملک کے فائیو جی نیٹ ورک پر چلنے والے ڈیٹا کو چوری کر سکتی ہے۔ چینی کمپنیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سٹریئر نے کہا کہ “اُنہیں [کمپنیوں کو] نجی معلومات یا املاکِ دانش کو چرانے، جاسوسی کرنے، انتہائی اہم سہولیات کو درہم برہم کرنے یا سائبر حملے کرنے کی خاطر نیٹ ورک کی سکیورٹی کو نقصان پہنچانے کا حکم دیا جا سکتا ہے۔

مگر یہ مسئلہ جاسوسی کرنے پر حکومتوں کا کسی کمپنی کو ممکنہ طور پر مجبور کیے جانے سے کہیں زیادہ بڑھکر ہے۔ فائیو جی ٹکنالوجیاں بجلی کے گرِڈوں، پانی کے پائپوں، خودکار گاڑیوں اور ٹیلی میڈیسن جیسے انتہائی اہم  بنیادی ڈھانچوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہ مستقبل کی معیشتوں کو چلائیں گی۔ یہ بنیادی ڈھانچہ اگر ناقابل بھروسہ فروخت کنندگان کے اختیار میں ہوگا تو اسے تباہ کن مداخلت یا درہم برہم کیے جانے کے خطرات کا سامنا رہے گا۔

مستقبل کا لائحہ عمل

سٹریئر نے کہا، “کیونکہ دنیا بھر میں ممالک اپنے ہاں کے مواصلاتی نظاموں کو فائیو جی کے تقاضوں کے مطابق جدید بنا رہے ہیں اس لیے ہم اُن پر زور دے رہے ہیں کہ وہ خطرات سے نمٹنے والا سکیورٹی کا ڈھانچہ اپنائیں۔ اِس طرز کے ڈھانچے کی سوچ کی بنیاد ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر فراہم کرنے والی کمپنیوں کی محتاط چھان بین اور  … یہ دیکھنے میں ہے کہ کسی غیر ملکی کمپنی کو اس فروخت کنندہ پر کس حد تک اختیار حاصل ہے۔”

یہ مضمون ایک مختلف شکل میں 4 جون کو شائع کیا جا چکا ہے۔