Man lying back with oxygen mask on his face (© Mohammad Al Shami/Anadolu Agency/Getty Images)
شام میں ایک کیمیائی حملے کے بعد ایک آدمی کو طبی امداد مہیا کی جا رہی ہے۔ (© Mohammad Al Shami/Anadolu Agency/Getty Images)

کیمیائی ہتھیاروں کے معائنہ کاروں کا خیال ہے کہ فروری میں شام کے علاقے سراقب میں ہونے والے واقعے میں کلورین کے استعمال کیے جانے کا امکان ہے۔ اس واقعے میں 11 افراد زخمی ہوئے تھے اور یہ باغیوں کے زیرقبضہ اُس علاقے میں پیش آیا جسے بشار الاسد کی حکومت واپس لینے کے لیے جنگ کر رہی ہے۔

معائنہ کاروں نے سراقب کے قرب و جوار میں پائے جانے والے دو سلنڈروں میں کلورین کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے۔

وزارت خارجہ کی ترجمان ہیدر نوآرٹ نے 17 مئی کو اپنے ایک بیان میں کہا، ” اسد حکومت اور اس کےایرانی اور روسی حلیفوں نے شامی عوام پر گھناؤنے مظالم  ڈھائے ہیں۔ 2013 میں دنیا سے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کو یقینی بنانے کا وعدہ کرنے  والا روس ہی بالآخر وہاں پر اِن ہتھیاروں کے مسلسل استعمال کا ذمہ دار ہے۔”

کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کی تنظیم نے اس واقعے کی مکمل تفتیش کی ہے۔ اس گروپ کے اخذ کردہ نتائج کی بنیاد انٹرویو کیے جانے والے افراد کے بیانات، انٹرویو کیے جانے والے افراد کی جانب سے مہیا کردہ نمونوں اور ہسپتالوں کے ریکارڈوں پر ہے۔

کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اپنے کام پر 2013 میں امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی یہ معائنہ کار تنظیم شام کے علاقے دُوما میں 7 اپریل کو کیے جانے والے ایک مشکوک حملے کی تحقیقات میں ابھی تک مصروف ہے۔ اس حملے میں بیسیوں افراد ہلاک ہوئے۔ سرکاری اور روسی افواج کی جانب سے باغیوں سے اس شہر کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کے بعد، معائنہ کاروں کی جائے وقوع پر آمد کئی دن تک تعطل کا شکار رہی۔