
امریکہ بھر کے طلبا طویل عرصے سے یہ حیرت انگیز داستان پڑہتے چلے آ رہے ہیں کہ کیسے فریڈرک ڈگلس نے غلامی سے نجات پائی اور اپنی آواز اور قلم کی طاقت کو غلامی کے خاتمے کے لیے استعمال کیا۔ تاہم ان کی اس داستان کا اثر امریکہ سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔
مورخ ڈیوڈ بلائٹ کہتے ہیں کہ میری لینڈ کے ایک زرعی فارم پر بطور غلام پیدائش کو دو سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ بھارت، نائجیریا اور آئرلینڈ کے لکھاریوں کو متاثر کر رہے اور ان کی تصانیف فریڈرک ڈگلس کا تذکرہ لیے ہوئے ہیں۔
بلائٹ کی ‘فریڈرک ڈگلس: آزادی کا پیامبر’ کے عنوان سے تحریر کردہ نئی سوانح کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا ہے۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ڈگلس کی داستان میں عالمگیر عناصر اور خصوصیات پائی جاتی ہیں جن میں پڑھنے لکھنے کی اہلیت کا حصول، نوعمری میں آزادی کی خواہش، خود پر ہونے والے جبرکو بے اثرکرنا اور اس سے جان چھڑانے کا تصور شامل ہیں۔
آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے لکھاری لارنس فینٹن کا کہنا ہے کہ نیلسن منڈیلا کی طرح ڈگلس کا نام بھی ”آزادی کی علامت” ہے۔
نائجیریا کی ناول نگار چیمامانڈا نگوزی ایڈیشی کا بیافرا کی خانہ جنگی پر لکھا ناول ” نصف زرد سورج” ایک ایسے غریب نوکر کے گرد گھومتا ہے جو بعد میں سپاہی بن جاتا ہے۔ اس سپاہی کو ایک تختہ سیاہ کے پیچھے پڑی ایک کتاب ملتی ہے جس کا عنوان ہے: ”ایک امریکی غلام فریڈرک ڈگلس کی زندگی کا بیانیہ”۔ اس کتاب سے متاثر ہو وہ اپنی کتاب لکھتا ہے۔

امیتاو گھوش کے ناول ”گل لالہ کا سمندر” بحرہند میں غلاموں کی تجارت کے موضوع پر ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک ملاح ہے جو بالٹی مور کی شپ یارڈ میں ڈگلس کو مار پیٹ کا نشانہ بنتے دیکھتا ہے۔ یہ ایک سچا واقعہ ہے۔
آئرلینڈ کے ناول نگار کولم مککین کے ناول ”اوقیانوس کے آر پار” کا ایک طویل حصہ 1845 اور 1846 میں ڈگلس کے دورہ برطانوی جزائر سے متعلق ہے جہاں انہوں نے غلامی کے خلاف تقاریر کیں اور آئرلینڈ میں آلو کے قحط کے آغاز پر ہولناک غربت کو دیکھتے ہوئے بھی لوگوں کو غلامی کے خاتمے کے لیے اکٹھا کیا۔
لگ بھگ 1818ء میں پیدا ہونے والے ڈگلس اپنی والدہ کے بارے میں بمشکل ہی جان پائے۔ انہیں 7 سال کی عمر میں غلام نوکر کے طور پر بالٹی مور بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے پڑھنا سیکھا اور مذہبی خطبات سن کر کنگ جیمز کی بائبل کی زبان یاد کر لی۔ بعدازاں انہیں فارم کے ایک ظالم مالک کے پاس مشقت کے لیے بھیج دیا گیا۔ ڈگلس کی فرار کی پہلی کوشش ناکام رہی مگر دوسری کوشش میں وہ ایک ملاح کے بھیس میں شمال کی جانب نکل جانے میں کامیاب ہوئے اور انہیں آزادی اور تاریخ میں مقام نصیب ہوا۔
انہوں نے ولیم لائیڈ نامی قلعے اور “نیو انگلینڈ غلامی کی مخالف سوسائٹی” نامی ادارے میں تقریریں کر کے خطابت کے فن میں کمال حاصل کیا۔ 27 سال کی عمر میں انہوں نے وہ پراثر ” بیانیہ” لکھا جس کا شمار اُن کی تین سوانح حیات میں ہوتا ہے۔
بلائٹ کہتے ہیں کہ ”ان کا کام اور الفاظ آج بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ [مثلاً] آزادی اپنے لامحدود مفاہیم میں بدستور انسانیت کی سب سے ہمہ گیر تمنا ہے۔”