4 نومبر کو امریکہ کے وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے اعلان کیا کہ امریکہ نے پیرس کے موسمیاتی تبدیلی کے سمجھوتے سے دستبرداری کا باضابطہ آغاز کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے اس عہد کا بھی اعلان کیا کہ (ہمارا) ملک معاشی ترقی پر سمجھوتہ کیے بغیر (آلودگی پھیلانے والے) اخراجوں میں کمی کرنا جاری رکھے گا۔
امریکہ اخراجوں میں کمی لانے والا دنیا کا ایک سرکردہ ملک ہے۔ امریکی اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 2005 سے 2017 کے درمیان امریکہ میں آلودگی پھیلانے والی گیسوں کے اخراجوں میں 13 فیصد حقیقی کمی آئی حالانکہ امریکی معیشت میں 19 فیصد سے زائد ترقی ہوئی۔
اس کامیابی میں زیادہ تر دخل توانائی کی اختراعی ٹکنالوجیوں کی تیاری اور اُن کےاستعمال کو حاصل ہے۔ اِس کے علاوہ اس میں جوہری توانائی شیل گیس، کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی ٹکنالوجیوں میں بہتر تبدیلیاں، توانائی کے قابل تجدید وسائل، بیٹریوں میں بجلی ذخیرہ کرنا اور توانائی کی کارکردگی میں اضافہ شامل ہیں۔
پومپیو نے کہا، “گو کہ امریکہ آلودگی پھیلانے والے تمام اقسام کے اخراجوں میں کمی لے کے آیا ہے مگر اس کے باوجود ہم اپنی معیشت کو ترقی دے رہے ہیں اور اپنے شہریوں کی سستی توانائی تک رسائی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ ہم اپنے عالمی ساتھیوں کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف لچک کو بڑہانے اور قدرتی آفات کے لیے تیاری اور اِن سے نمٹنے کے لیے اپنا کام کرنا جاری رکھیں گے۔”

معاہدے سے باضابطہ دستبرداری کی باضابطہ اطلاع ایک خط کے ذریعے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹیرز کو دے دی گئی ہے۔ اس سے صدر ٹرمپ کے یکم جون 2017 کو کیے جانے والا وہ وعدہ پورا ہو گیا ہے جس میں انہوں نے ایک ایسے سمجھوتے سے نکلنے کا وعدہ کیا تھا جو دوسرے ملکوں کو کھلی چھٹی دیتے ہوئے امریکی کاروباروں، کارکنوں اور ٹیکس دہندگان پر غیر منصفانہ بوجھ ڈالتا ہے۔
دستبرداری کا یہ فیصلہ اطلاع دیئے جانے کے ایک سال بعد یعنی 4 نومبر 2020 کو نافذ العمل ہو جائے گا ۔
23 اکتوبر کو توانائی کے شعبے سے متعلق ایک کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا، “اس وقت ہماری ہوا اور ہمارا پانی اتنے ہی صاف ہیں جتنے دہائیوں سے صاف چلے آ رہے ہیں۔”
سستی، قابل اعتماد اور صاف توانائی کے ساتھ ساتھ توانائی کی بہتر کارکردگی سے امریکہ اندرون ملک نئی ملازمتیں پیدا کر رہا ہے اور بین الاقوامی منڈی میں نئے مواقعوں کی تلاش میں امریکی کمپنیوں کی مدد کر رہا ہے۔
پومپیو نے کہا، “ہم نے اپنی توانائی کی کمپنیوں کو اختراعات اور مسابقت کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے اور ہمارے کاربن کے اخراج ڈرامائی طور پر کم ہو گئے ہیں۔”