دستانے پہنے ایک آدمی نے چیتے کا ایک چھوٹا سا بچہ ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے (© Juni Kriswanto/AFP/Getty Images)
فطرت کی محفوظگی کی تنظیم کا ایک افسر 4 مارچ کو سورابایا، انڈونیشیا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران چیتے کے ایک بچے کو اٹھائے ہوئے ہے۔ جنگلی حیات کی سمگلنگ کرنے والے ایک گروپ کے ارکان کو گرفتار کرنے کے لیے اس تنظیم نے پولیس کے ساتھ مل کر کام کیا۔ (© Juni Kriswanto/AFP/Getty Images)

امریکہ اور ناروے ایسی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے مشترکہ کوششوں میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں جو انسانوں اور فطرت کے لیے براہ راست خطرہ بن چکی ہیں۔

21 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ناروے کے موسمیات اور ماحولیات کے وزیر، ایسپن بارتھ آئیڈ اور امریکی کے محکمہ خارجہ میں سمندروں اور بین الاقوامی ماحولیات اور سائنسی امور کی اسسٹنٹ سیکرٹری، مونیکا میڈائنا نے 11 ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ فطرت کے خلاف جرائم کے موضوع  پر ایک گول میز کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کی۔

جنگلات کی مجرمانہ قسم کی کٹائی، جنگلی حیات کی تجارت، کان کنی، زمین کی نوعیت میں تبدیلی اور اس سے متعلقہ سرگرمیاں، نیز ماہی گیری سے جڑے جرائم  فطرت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ فطرت کے خلاف جرائم پوری دنیا میں ماحولیاتی اور محفوظگی کی کوششوں کے لیے خطرہ ہیں۔

گول میز کانفرنس کے بعد امریکہ اور ناروے نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ “استحصال کے اس منظم، بین الاقوامی مجرمانہ سلسلے کا پہلا شکار فطرت بنتی ہے۔ ہم یہاں پر موجود لوگوں کے ساتھ ایک ایسے وقت مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں جب ہم “نیچر کرائم الائنس” نامی ایک نئے مشترکہ منصوبے کو مزید بہتر بنانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

ریت کے اوپر رینگتے ہوئے سمندری کچھووں کے بچوں کے اوپر دستانے والا ایک بڑا ہاتھ (© Resha Juhari/NurPhoto/Getty Images)
محفوظگی کے ایک پروگرام کے تحت 4 اگست کو انڈونیشیا کے بانگکا بیلائتنگ جزائر میں سمندری کچھووں کے سینکڑوں بچوں کو پانی میں چھوڑا گیا۔ سمندری کچھووں کے 2,287 انڈوں کو غیرقانونی تجارت سے بچا کر اِن سے بچے نکالے گئے جنہیں بعد میں پانی میں چھوڑ دیا گیا۔ (© Resha Juhari/NurPhoto/Getty Images)