Ahmad Ashkar leaning on a table, with Falafel Inc. logo painted on the wall behind him (State Dept./D.A. Peterson)
احمد اشقر واشنگٹن کے جارج ٹاؤن کے علاقے میں واقع اپنے فلافل اِنک نامی ریستوران میں کھڑے ہیں۔ (State Dept./D.A. Peterson)

احمد اشقر اپنے کاروباری طریقہ کار سے متعلق اتنے ہی پرجوش ہیں جنتے کہ وہ اپنے فاسٹ فوڈ ریستوران میں بیچے جانے والے فلافل سے متعلق پرجوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “انسانیت کے کاروبار کو بڑھاوا دینے [کی سوچ کے] برعکس” یہ سوچ کہ  “کاروبار انسانیت کی کیسے خدمت کر سکتا ہے” ایک تازہ ترین پیش رفت ہے۔

فلسطینی نژاد امریکی احمد اشقر نے مئی 2017 میں واشنگٹن میں “فلافل اِنک” کے نام سے فاسٹ فوڈ کا ایک ریستوران کھولا جہاں وہ اپنی والدہ کی ترکیب سے تیار کردہ فلافل اور ہمس بیچتے ہیں۔ پہلے دن سے ہی ان کا کام بہت اچھا چل رہا ہے۔

ان کا ریستوران ہر 10 ڈالر کی سیل [بِکری] پراتنے پیسے عطیے میں دیتا ہے جو ایک پناہگزین کو کھانا کھلانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ وہ ہر ہفتے کی سیل کا حساب کرنے کے بعد یہ پیسے خوراک کے عالمی پروگرام کو اس کے ShareTheMeal app نامی ایپ کے ذریعے پہنچا دیتے ہیں۔

یہ طریقہ کار تھوڑا سا مختلف انداز میں فرنچائز کے طرزِ کاروبار سے ملتا جلتا ہے۔ جب فرنچائز لینے والے کسی کاروباری برانڈ کا لائسنس حاصل کرتے ہیں تو وہ فرنچائز دینے والی کمپنی کو باقاعدگی سے باہمی رضامندی سے طے پانے والی شرح کے مطابق رائلٹی ادا کرتے ہیں۔ اس رائلٹی کی شرح سیل کے 50 فیصد تک جا سکتی ہے۔ کسی بڑی کارپوریشن کو رائلٹی دینے کی بجائے فلافل اِنک یہ رقم خوراک کے عالمی پروگرام کو ادا کرتا ہے۔

اشقر کہتے ہیں، “یہ کام ایک خودکار طریقے سے ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تب بھی ہمارے کام کے اثرات مرتب ہو رہے ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ ایک درست کام ہے بلکہ حقیقتاً کاروبار کرنے کا یہ ایک اچھا طریقہ بھی ہے۔”

کینسس سٹی، کینسس میں پیدا ہونے والے اشقر نے اپنے بچپن کے چند برس تو مشرق وسطٰی میں گزارے مگر وہ امریکہ کے وسطی مغرب میں پلے بڑھے۔ ان کے والدین فلسطینی تارکین وطن تھے۔ اشقر لیون ورتھ، کینسس کے ایمکیولیٹ کیتھولک ہائی سکول کے فٹبال کے ایک مقبول کھلاڑی تھے۔ اپنے کھیل کی بنیاد پرانہیں پہلے یونیورسٹی آف نیبراسکا اور بعد میں کینسس سٹی، مزوری کی نجی انتظام میں چلنے والی، اویلا یونیورسٹی میں تعلیم کے لیے سو فیصد سکالرشپ ملے۔ اویلا یونیورسٹی کی بنیاد سینٹ جوزف آف کیرونڈیلٹ کی ایک جماعت نے رکھی تھی۔ اشقر نے ہلٹ انٹرنیشنل بزنس سکول سے ایم اے کی ڈگری لے رکھی ہے۔

اشقر کا خیال ہے کہ انسانی خدمت اور کاروبار دو علیحدہ علیحدہ چیزیں نہیں ہیں۔ ان کا فلسفہ خالص سرمایہ داری اور سماجی  شعور ہے اور اُن کے مطابق کاروباری اداروں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ کاروبار کے ساتھ ساتھ انسانی خدمت بھی پھلتی پھولتی رہے۔

وہ پناہگزینوں کو کاروباری تربیت، ملازمتوں کی فراہمی اور فلافل اِنک کی طرح کے اپنے چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے موقعے فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ دس لاکھ پناہگزینوں کو خوراک فراہم کرنے کی غرض سے اُن کا “خوراک کے بدلے خوراک” کے نعرے کے تحت فرنچائز کی بنیادوں پر مزید ریستوران کھولنے کا ارادہ ہے۔

اشقر کو “اسکوائر” نامی رسالے نے سال 2016 کی کاروباری شخصیت قرار دیا۔ انہوں نے ہلٹ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور وہ اس کے سربراہ ہیں۔ اس فاؤنڈیشن کا مقصد ایسی قابل عمل منفعتی/سماجی بھلائی کی نئی کمپنیاں بنانے کے لیے نوجوان سماجی کاروباری منتظمین کی ہمت افزائی کرنا ہے جو دنیا کے اہم ترین مسائل سے نمٹ سکیں۔ اشقرغربت کے خاتمے پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے اختراعی منصوبے کے مشاورتی بورڈ کےممبر بھی ہیں۔