فلبرائٹ پروگرام کیا ہے؟

پودینے والی چائے انڈھیلتے ایک عورت کے برابر میں کھڑے صوفیان ایسارراوئی (© Shaakira Jones/Bennett College)
بائیں جانب کھڑے فلبرائٹ کے غیر ملکی زبان سکھانے والے ایک معاون استاد، صوفیان ایسارراوئی نے مراکش میں گرمیوں میں تعلیم کے ایک پروگرام کے لیے گرانٹ کی ایک تجویز تیار کرنے میں مدد کی جس میں عورتوں اور جمہوریت پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ (© Shaakira Jones/Bennett College)

فلبرائٹ پروگرام امریکی حکومت کا تبادلے کا ایک منفرد اور ممتاز پروگرام ہے۔ اس پروگرام کے تحت امریکی اور بین الاقوامی طلبا، علمی ماہرین، اساتذہ، آرٹسٹوں اور پیشہ ور افراد کو عالمگیر مسائل حل کرنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔

یہ پروگرام تعلیم، پڑھانے اور تحقیق کرنے کے لیے سالانہ 8,000 فیلو شپس دیتا ہے۔ اس پروگرام کے آغاز سے لے کر اب تک 160 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے چار لاکھ افراد اس میں شرکت کر چکے ہیں۔ اس پروگرام کے امریکی شرکاء بیرونی ممالک میں اپنے میزبان اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، لیکچر دیتے ہیں اور خصوصی تحقیق کرتے ہیں۔ اس کے غیرملکی شرکاء امریکہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں اور اپنے میزبان اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ اس میں شامل افراد کا تعلق مختلف پسہائے منظر سے ہوتا ہے اور اُن کا انتخاب قابلیت پر مبنی ایک مسابقتی عمل کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

رالف ایچ ووگل “فلبرائٹ پروگرام کا ارتقا” کے عنوان سے  اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، “آکسفورڈ کے ایک ڈین نے فلبرائٹ پروگرام کو 1453ء میں قسطنطنیہ کے زوال کے بعد سے اب تک کی علمی ماہرین کی دنیا میں اہم ترین نقل و حمل قرار دیا۔”

آغاز

فلبرائٹ پروگرام دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی کانگریس نے امریکی شہریوں کو خیالات کے تبادلے اور دوسرے ممالک کے لوگوں کے ساتھ رابطے پیدا کرنے کے مواقع فراہم کرکے مستقبل کے تنازعات کو روکنے کے مقصد سے بنایا تھا۔ صدر ہیری ایس ٹرومین نے یکم اگست 1946 کو اس قانون پر دستخط کیے جس کے تحت  یہپروگرام وجود میں آیا۔

ہر سال امریکی کانگریس فلبرائٹ پروگرام کی سرپرستی کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کو فنڈز مہیا کرتی ہے۔ اب  بہت سی دوسری حکومتیں بھی اس میں اپنا اچھا خاصا حصہ ڈالتی ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی اور غیر ملکی اعلیٰ تعلیمی ادارے، غیر سرکاری تنظیمیں، نجی ادارے، کارپوریشنیں اور انفرادی طور پر عطیات دینے والے لوگ بھی اس پروگرام کے لیے فنڈز فراہم کرتے ہیں۔

اس پروگرام کا انتظام محکمہ خارجہ کے ہاتھ میں ہے جو صدر کی طرف سے تشکیل دیئے جانے والے “فلبرائٹ فارن سکالرشپ بورڈ” کے وضح کردہ رہنما اصولوں کے تحت اس پروگرام کو چلاتا ہے۔

ووگل اپنے مضمون میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اولین بورڈ کے ابتدائی فیصلے اس پروگرام کی وہ بنیادیں ہیں جن پر اس پروگرام کی اٹھان ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں، “جب فلبرائٹ پروگرام کا آغاز ہوا تو اس بات کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا کہ ایک دن یہ پروگرام تبادلوں کے بین الاقوامی پروگراموں میں سے ایک منفرد اور ممتار پروگرام بن کر ابھرے گا۔”

 وائٹ ہاؤس کے باہر صدر جان ایف کینیڈی کے ارد گرد لوگوں کا گروپ۔ (© Corbis/Getty Images)
صدر جان ایف کینیڈی تبادلے کے اس پروگرام کے شرکاء سے مل رہے ہیں۔ انہوں نے فلبرائٹ پروگرام کو “تخلیقی اور تعمیری سیاسی قیادت” قرار دیا۔ (© Corbis/Getty Images)

ووگل کے مطابق اس پروگرام میں شرکت کرنے والی حکومتوں کے ساتھ کیے جانے والے سمجھوتوں، اور بیرونی ممالک میں دو طرفہ کمیشنوں کے قیام نے تبادلے کی تیزرفتار قبولیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت 49 ممالک میں دو طرفہ  فلبرائٹ کمیشن اس پروگرام کی ترجیحات طے کرتے ہیں۔ امریکہ اور متعلقہ میزبان حکومتیں مشترکہ طور پر کمیشنوں کے لیے فنڈ مہیا کرتی ہیں  اور امریکی اور شراکت دار ملک کے شہریوں پر مشتمل بورڈ ان  کمیشنوں کو چلاتے ہیں۔ جن ممالک میں فلبرائٹ کمیشن نہیں ہوتے وہاں امریکی سفارت خانے کا عوامی امور کا شعبہ اس پروگرام کی نگرانی کرتا ہے۔ امریکہ میں محکمہ خارجہ کی جانب سے کئی غیرمنفعتی تنظیمیں اس پروگرام کے مختلف حصوں کو چلاتی ہیں۔

ترقی

10 مئی 1951 کو سکالرشپ بورڈ کے چیئرمین کو لکھے گئے ایک خط میں ٹرومین نے کہا کہ فلبرائٹ پروگرام “ایک دوسرے کو پہلے سے بہتر سمجھنے میں ہم سب کی مدد کر رہا ہے،” جبکہ  اس وقت شریک 12 ممالک یعنی (بلجیئم، برما، فرانس، یونان، ایران، اٹلی، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، فلپائن، برطانیہ اور امریکہ) میں “سماجی ، معاشی اور سیاسی حالات کے بارے میں بگاڑوں کا مؤثر طریقے سے خاتمہ کر رہا ہے۔

اس پروگرام میں 1950 کی دہائی کے آخر تک 40 ممالک شامل ہو چکے تھے۔

27 جنوری 1958 کو صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور نے فلبرائٹ تبادلے کو بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ “معلومات اور تعلیم امن کے حق میں طاقتور قوتیں ہیں۔”

بعد میں صدر جان ایف کینیڈی نے ذاتی طور پر اس کی پرزورحمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ فلبرائٹ کے بہت سے سابق شرکاء نے “تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی امور کی مشترکہ مارکیٹ” میں قوموں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنایا ہے۔ “مجھے یقین ہے کہ یہاں، یہ شعبہ ہمارے خارجہ تعلقات میں سب سے بڑی امید کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو تیزی سے ہماری خارجہ پالیسی کے ایک اہم جزو کی حیثیت سے اپنا مقام حاصل کر لے گا۔”

2021ء میں فلبرائٹ پروگرام کی 75ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس کا آغاز محدود ممالک میں تبادلے کے مواقع کی پیشکش سے ہوا۔ آج یہ پروگرام دنیا کے 160 سے زائد ممالک میں چل رہا ہے۔

کھلے دورازے

 سٹیج پر رکھی کرسی پر بیٹھی گاتی ہوئی ایک خاتون۔ (© Robbie Jack/Corbis/Getty Images)
رینے فلیمنگ 1984 میں فلبرائٹ طالبہ کی حیثیت سے جرمنی گئیں۔ وہ جرمن موسیقار، رچرڈ سٹراس کے موسیقی کے ذخیرے کی ماہر ہیں۔ (© Robbie Jack/Corbis/Getty Images)

فلبرائٹ کے سابق شرکاء نے اپنی کمیونٹیوں اور دنیا کی مدد کی ہے۔ اِن میں مندرجہ ذیل شعبوں کی اہم شخصیات شامل ہیں:-

  • ملکوں اور حکومتوں کے موجودہ یا سابقہ 40 سربراہ۔
  • نوبیل انعام پانے والی 60 شخصیات۔
  • پلٹزر انعام جیتنے والی 89 شخصیات۔
  • عوامی خدمت، کاروبار، سائنس، تعلیم اور آرٹس کے شعبوں میں بہت سے دیگر رہنما۔

فلبرائٹ پروگرام کے نامور شرکاء میں 2016ء میں نوبیل انعام جیتنے والے، کولمبیا کے سابق صدر، خوان مینوئل سانتوس؛ سفارت کار اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، تھامس پکرنگ؛ تاریخ دان، جان ہوپ فرینکلن؛ مصنفین جان سٹیئن بیک، مایا اینجلو اور سلویا پلیتھ؛ ماہر طبیعیات ریکارڈو جیاکونی؛ اور 2002ء میں نوبیل انعام جیتنے والے اداکار، جان لتھگو؛ اوپیرا کی سوپرانو رینے فلیمنگ؛  شیشہ گر، ڈیل چیہولی؛ اور ماہر تعیمرات ڈینیئل لائبزکنڈ شامل ہیں۔

فلبربرائٹ کے بہت سے سابق شرکاء نے اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں اور وہ اپنی زندگیوں اور اپنی کمیونٹیوں پر تبادلے کے اس پروگرام سے مرتب ہونے والے اثرات کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔

مراکش کے 27 سالہ صوفیان ایسارراوئی نے فلبرائٹ کے غیر ملکی زبان سکھانے والے ایک معاون استاد کی حیثیت سے ایک پروگرام میں حصہ لیا اور شمالی کیرولائنا میں عربی کورس پڑھائے رہے۔   اسی دوران انہوں نے خود بھی  شمالی کیرولائنا کے گرینز برو کے بینٹ کالج میں 2019-2020 کے تعلیمی سال کے دوران تعلیم حاصل کی۔ جب وہ مراکش واپس لوٹے تو انہوں مراکش میں  انگریزی کے استاد اور مراکش کی سیاحت کی وزارت کے ٹور گائیڈ کی حیثیت سے کام کرنا شرع کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ فلبرائٹ پروگرام نے انہیں امریکی ثقافت کے بارے میں سکھایا اور انہیں گفتگوکرنے کی مضبوط مہارتیں سیکھنے میں مدد کی۔ اپنی طرف سے انہوں نے بہت سے امریکیوں کو مراکش کی ثقافت سے متعارف کرایا۔

 نوجوان لڑکیا مگر مچھ اٹھائے جھاڑیوں کے سامنے تصویر اتروانے کے لیے کھڑی ہیں۔ (Courtesy of Amber Ajani)
فلوریڈا میں نظر آنے والی امبر اجانی (درمیان میں) کا کہنا ہے کہ باہمی ثقافتی تبادلے نے ذاتی اور پیشہ ورانہ ترقی کو پروان چڑہایا۔ (Courtesy of Amber Ajani)

پاکستان کی 30 سالہ امبر اجانی کو 2014 سے 2016 تک واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی میں فلبرائٹ پروگرام کے تحت ماحولیاتی سائنس پڑھنے کا موقع ملا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس پروگرام نے انہیں “بین الاقوامی ماحول میں کام کرنے کا انمول موقع” فراہم کیا۔ آج کل وہ اقوام متحدہ کے آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق فریم ورک کے کنونشن میں ایک فیلو کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، “میں حیران تھی کہ میرا بین الاقوامی نقظہ نظر کتنا محدود تھا اور میرے لیے سیکھنے اور تجربہ حاصل کرنے کے لیے کتنا کچھ  تھا۔” وہ اس موقعے کے ملنے پر شکرگزار ہیں جس میں “بہت زیادہ متنوع پسہائے منظر، تجربات اور نقطہائے نظر رکھنے والے لوگوں سے ملنا بھی” شامل تھا۔

فلبرائٹ کے غیرملکی طلبا کے پروگرام اور اس میں درخواست دینے کے بارے میں مزید جانیے۔