فلپائنی اب ‘متبادل تعلیمی مقامات’ پر بحفاظت تعلیم حاصل کر سکتے ہیں

10 سالہ ریحانہ اینڈیگے، 2017ء تک کبھی بھی سکول نہیں جا پائی تھی اور وہ اپنا نام تک نہیں لکھ سکتی تھی۔

وہ فلپائن کے جنوبی صوبے منڈاناؤ میں رہتی ہے جہاں متشدد انتہا پسندی اور غربت کی وجہ سے بہت سے بچے سکول نہیں جا سکتے۔ مگر $360,000  ڈالر کی امریکی امداد کی وجہ سے ریحانہ جیسے بچے اب سکول جا رہے ہیں۔

ایک کلاس روم میں ایک لڑکی نے سبز رنگ کا بیگ پکڑا ہوا ہے۔ (Integrated Mindanaoans Association for Natives for USAID)
فلپائن میں امریکہ کے تعاون سے چلنے والے ایک پروگرام میں پورا معاشرہ شامل ہے۔ (Integrated Mindanaoans Association for Natives for USAID)

اس امداد سے ایسے “متبادل تعلیمی مقامات” قائم کیے گئے ہیں جہاں بچے بحفاظت ریاضی اور پڑھائی لکھائی کی صلاحیتیں حاصل کر سکتے ہیں۔ اس پروگرام میں کمیونٹی اجتماعی طور پر شامل ہوتی ہے: مثلاً گاؤں عارضی استعمال کے لیے عمارتیں دیتے ہیں؛ مقامی سرکاری حکام میز کرسیاں فراہم کرتے ہیں؛ والدین بچوں کے لیے مکمل کھانے اور ہلکی پھلکی اشیاء تیار کرتے ہیں؛ اور فلپائن کا محکمہِ تعلیم طلبا کی حاضری اور پیشرفت پر نظر رکھتا ہے۔

جب ریحانہ کے والدین نے اس پروگرام کے بارے میں سنا تو اُنہوں نے اپنی بیٹی کو سکول بھیجنا شروع کر دیا۔ ریحانہ کی والدہ کہتی ہیں، “ریحانہ اپنی کلاس میں جانے کے لیے اصرار کرتی ہے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانے پرمجبور کرنے کے لیے میرے کپڑے کھینچتی ہے۔”

ریحانہ اب پڑھ لکھ سکتی ہے۔ وہ اب زیادہ پُراعتماد ہے اور اُس نے نئی سہیلیاں بنا لی ہیں۔ اُس کی والدہ کہتی ہیں، “اس پروگرام کے بغیر ہم اُسے وہ تعلیم دلانے کی کوششیں ترک کر دیتے جس کی اُسے ضرورت تھی۔”

متبادل تعلیمی مقامات  ‘دیہی ترقی کے لیے جدت طرازی’  نامی ایک بڑے پروگرام کا حصہ ہیں جسے بین الاقوامی ترقی کا امریکی ادارہ  (یو ایس ایڈ ) چلاتا ہے۔

اس مضمون کی ایک طویل شکل یو ایس ایڈ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔