فلبرائٹ پروگرام دنیا کے 160 ممالک میں چل رہا ہے مگر جتنے طویل عرصے اور تسلسل کے ساتھ یہ پروگرام فلپائن میں چل رہا ہے اتنے تسلسل سے یہ پروگرام کسی دوسرے ملک میں نہیں چلا۔
اس پروگرام کے تحت 1948 سے لے کر اب تک 3200 فلپائنی اور 1000 امریکیوں سمیت 4200 سے زیادہ طلبہ نے ایک دوسرے کے ممالک یعنی امریکہ اور فلپائن میں گریجوایشن مکمل کی، پڑھایا اور تحقیقی کام کر چکے ہیں۔ ان میں فلپائن کے بعض انتہائی ممتاز فنکار، سائنس دان اور سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں۔
فلبرائٹ پروگرام امریکی حکومت کی معاونت سے چلایا جانے والا عالمگیر تعلیمی تبادلے کا سب سے اہم اور ممتاز پروگرام ہے۔ اس کے شرکا تعلیمی قابلیت اور قائدانہ اہلیت کی بنا پر منتخب ہوتے ہیں۔ فلپائن اور درجنوں دیگر ممالک میں امریکہ اور متعلقہ ملک پر مشتمل ایک قومی کمیشن متعلقہ ملک کی براہ راست اور بالواسطہ معاونت سے سکالرشپ کے اس پروگرام کو چلاتے ہیں۔
فنون لطیفہ کا فلپائن میں سب سے بڑا اعزاز پانے والے ادبی نقاد اور مضمون نگار، ریسل موجیرس بتاتے ہیں کہ 1982 میں ایک فیلوشپ کی بدولت انہیں 14 بڑی امریکی لائبریریوں اور دستاویز خانوں میں تحقیق کرنے کا موقع ملا جس سے انہیں یونیورسٹی آف سان کارلوس میں سیبوانو سٹڈیز سنٹر کے مجموعہ جات تشکیل دینے میں مدد ملی۔ وہ کہتے ہیں، ”یہ غیرمعمولی حد تک ایک مفید تجربہ تھا۔”

منڈاناؤ کی یونیورسٹی آف فلپائن میں غذائی سائنس اور کیمیا کی استاد کریزا کالومبا سمیت اپنے مستقبل کی ابتدائی دور سے گزرنے والے دیگر فلبرائٹ سکالر لوزیانا سٹیٹ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے پڑھائی کر رہے ہیں۔
کالومبا کہتی ہیں کہ سکالرشپ سے ”غذائی سائنس دان کی حیثیت سے معاشرے کی خدمات کرنے کے میرے جذبے میں اضافہ ہوا ہے” اور مجھے یہ جاننے میں مدد ملی ہے کہ میں ”کیسے اپنے ملک میں غذائی تحفظ کی صورتحال میں بہتری لا سکتی ہوں۔”
فلبرائٹ سکالر مارک پریسٹن ایس لوپز یونیورسٹی آف فلوریڈا میں تعلیم کے شعبے میں ڈاکٹریٹ مکمل کر رہے ہیں۔ فلپائن کے شہر بونٹوک میں ماؤنٹین پراونس سٹیٹ پولی ٹیکنیک کالج میں استاد کی ذمہ داریاں نبھانے والے لوپز کا کہنا ہے کہ ”بین الثقافتی تجربے نے مجھے ناصرف فرد بلکہ پیشہ ور کی حیثیت سے بھی بہتر بنایا ہے۔ میں یہاں جو کچھ سیکھ رہا ہوں اسے آگے پھیلانے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ اپنے مقامی تناظر میں اس کا اطلاق کر سکوں۔”
فلبرائٹ سکالرشپوں کی نگرانی فلپائن امریکی تعلیمی پروگرام ‘ نامی ادارے کے ذریعے کی جاتی ہے اور فلپائن اور امریکہ دونوں اس ادارے میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
لاس بینوس میں واقع یونیورسٹی آف دی فلپائن میں غذائی مائکرو بیالوجی پر تحقیق کرنے والی امریکی، مشیل زیبیٹ فلپائن میں اکثر سفر کرتی رہتی ہیں تاکہ ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے فلپائنی باشندوں سے مل سکیں۔ براؤن یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے والی زیبیٹ کہتی ہیں ”بلاشبہ یہاں فلپائنی یونیورسٹیوں کے اندر سیکھنے کو بہت کچھ ہے مگر ان سے باہر بھی ہر جگہ آپ بہت کچھ دیکھ اور سیکھ سکتے ہیں۔”
1946 میں جب نوجوان سینیٹر جے ولیم فلبرائٹ نے عالمگیر خیرسگالی کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی تبادلے کی تجویز پیش کی توان کے ذہن میں بالکل یہی کچھ تھا۔