
فٹ بال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے۔ دسیوں ہزاروں شائقین 2022 کا فٹ بال کا عالمی کپ دیکھنے کے لیے قطر گئے ہیں۔ شائقین کا کہنا ہے کہ جس انداز سے وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ جن طریقوں سے اپنی ٹیموں کے حوصلے بڑہاتے ہیں وہ اتنے ہی متنوع ہیں جتنے متنوع اُن کے ممالک ہیں۔
29 نومبر کو دوحہ سے سیاٹل کے چیز کانیا نے شیئر امریکہ کو بتایا کہ “گزشتہ رات ہم اوہائیو سے تعلق رکھنے والے ایرانی مداحین سے ملے۔ ہم ٹیکساس سے آنے والے میکسیکو کے مداحوں سے ملے۔ یہ سب ہماری منفرد ثقافت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔”

کانیا کا شمار ایک اندازے کے مطابق فٹ بال کے اُن 50,000 امریکی شائقین میں ہوتا ہے جو 20 نومبر سے لے کر 18 دسمبر تک دوحہ میں ہونے والا عالمی کپ دیکھنے آئے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق 27 نومبر تک امریکی شائقین ٹورنامنٹ دیکھنے کے لیے آنے والوں کی تعداد کا 7 فیصد تھے۔ یہ تعداد سعودی عرب اور بھارت کے شائقین کے بعد تیسری سب سے بڑی تعداد ہے۔
گو کہ حالیہ دہائیوں میں امریکہ میں فٹ بال کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے تاہم امریکی شائقین کہتے ہیں کہ اس کھیل کے امریکی ماحول کی روایات کا بہت زیادہ انحصار اُن ممالک کی روایات پر ہے جہاں فٹ بال یا ساکر طویل عرصے سے سب سے زیادہ کھیلے جانے والا کھیل چلا آ رہا ہے۔
کانیا نے اپنے آبائی شہر سیاٹل میں فٹ بال کے شائقین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “ہمارے ہاں ایک نعرہ جرمنی جیسا ہوگا، ایک نعرہ شمالی یورپ جیسا ہوگا اور ایک جنوبی امریکہ جیسا ہوگا۔’ تاہم “ہم یہ [نعرے] منفرد امریکی انداز سے لگاتے ہیں۔”
کانیا کے نزدیک دوسرے ممالک کے شائقین کی روایات کو گلے لگانا بلکہ اپنانا قدرتی محسوس ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں چونکہ امریکہ ملی جلی ثقافتوں کی وجہ سے ‘کٹھالی’ کے طور پر جانا جاتا ہے تو “میں توقع کرتا ہوں ہمارا فٹ بال کا ماحول بھی اس سے مختلف قطعا نہیں ہو سکتا۔”
شان ایلن جنوبی کیلی فورنیا کے ہسپانوی علاقے میں پلے بڑھے۔ اس امر کو وہ فٹ بال کے ساتھ اپنے لگاؤ کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کھیل کے مقابلتاً نئے مداح ہونے کی وجہ سے امریکی شائقین اپنے بین الاقوامی ساتھیوں کی نسبت زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں۔
ایلن 29 نومبر کو امریکہ اور ایران کا میچ دیکھنے اُسی بس میں گئے جس میں شور مچاتے ہوئے ایرانی مداحین بیٹھے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے اسی بس میں بیٹھے ہوئے شیئر امریکہ کو بتایا کہ “فٹ بال کے اچھے شائقین بننے کے حوالے سے غالباً ہمارا اپنا ایک طریقہ ہے۔ ہم اپنے نعروں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔”

امریکی ٹیم کے کھلاڑی اتنے ہی متنوع ہیں جتنے کے اس کے مداح ہیں۔ امریکی ٹیم نے ایران کے خلاف اپنا میچ ایک گول سے جیتا۔ تاہم دوسرے راؤنڈ میں امریکہ 3 دسمبر کو ہالینڈ سے تین کے مقابلے میں ایک گول سے ہارنے کے بعد عالمی کپ کے مقابلوں سے باہر ہوگیا۔
مردوں کی امریکہ کی قومی فٹ بال ٹیم (یو ایس ایم این ٹی) میں کولمبیا میں پیدا ہونے والے فارورڈ، جیسس فریرا اور ہالینڈ میں پیدا ہونے والے فل بیک، سرگینو ڈیسٹ کے علاوہ وہ کھلاڑی بھی شامل ہیں جن کے خاندانوں کا تعلق ایل سلواڈور، جاپان اور لائبیریا سمیت دیگر ممالک سے ہے۔ امریکی ٹیم کے کوچ گریگ برہالٹر نے روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ “اس ٹیم کا تنوع امریکہ کا تنوع ہے۔”
جہاں دوحہ میں امریکی شائقین امریکی فٹ بال کے متنوع پسہائے منظر پر فخر کرتے ہیں وہیں مردوں کی قومی ٹیم کے نوجوان کھلاڑی امریکیوں کو مستقبل کے ٹورنامنٹوں کے بارے میں امید دلاتے ہیں۔ خبروں کے مطابق امریکی ٹیم کے کھلاڑی عالمی کپ میں حصہ لینے والی 32 ٹیموں کے کھلاڑیوں کی عمروں کے لحاظ سے دوسری سب سے کم عمر ٹیم ہے۔

نیبراسکا سے تعلق رکھنے والے فٹ بال کے سابق کوچ اور اب امریکی فوج میں خدمات انجام دینے والے ٹائلر کرکنر نے کہا کہ “اس برس ہم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے جا رہے ہیں مگر چار برس میں صورت حال مزید بہتر ہو جائے گی۔”
امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو 2026 کے فٹ بال کے عالمی کپ کی مشترکہ میزبانی کریں گے۔ کانیا بھی 2026 میں ہونے والے عالمی کپ میں امریکی ٹیم کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں پرامید ہیں۔ کانیا نے کہا کہ “ہم بڑی تیزی سے خامیاں دور کر رہے ہیں۔ جب ہم عالمی کپ کی میزبانی کریں گے … تو ہم جیتیں گے۔”