پین امیریکا [Pen America] نامی تنظیم کے تحت اس برس کا ‘ پین امیریکا وائسز فسٹیول’ 10 سے 13 مئی تک نیویارک اور لاس اینجلیس میں ہوگا۔ اِن دونوں شہروں میں 27 ممالک سے تعلق رکھنے والے 100 مصنفین تقریریں کریں گے۔ اوپر تصویر میں نظر آنے والے ٹانا ہاسی کوٹس کا شمار بھی اِس فیسٹیول کے مقررین میں ہوتا ہے۔
اس فسٹیول یعنی میلے کے منتظم کریس روسز شریف کہتے ہیں کہ “آپ داستان گوئی کی طاقت سے لوگوں کے ذہن کھول سکتے ہیں۔ مصنفین ایسی بہت منفرد کہانیاں سنا سکتے ہیں جو عالمگیر ہوتی ہیں۔ ہم اپنا آپ کسی ایسے شخص کی کہانی میں بھی دیکھ سکتے ہیں جس کا تعلق نائجیریا، پاکستان، کولمبیا یا میکسیکو سے ہو۔”
روسز شریف کہتے ہیں کہ اس میلے کی ابتدا 9/11 کے دہشت گرد حملوں کے بعد ہوئی۔ تب بھی اِس کی ضرورت تھی اور آج بھی اس کی ضرورت ہے۔

“مصنفین چاہتے ہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ رابطے میں رہیں، اپنے آپ کو وہ کردار یاد کرائیں جو وہ معاشرے میں ادا کرتے ہیں اور یہ کہ وہ جو کام کرتے ہیں وہ ہمیں جوڑنے کے لیے ضروری ہے … اور وہ ہمیں ہماری مشترکہ انسانیت سے جوڑنا چاہتے ہیں۔”
بھارتی نژاد امریکی ناول نگار اکھیل شرما ڈیوک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور وہ اس فیسٹیول کے ایک پینلسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لکھاریوں کو دوسرے مصنفین اور قارئین کو ملنا بہت اچھا لگتا ہے۔ شرما کا کہنا ہے کہ “گزشتہ کچھ دہائیوں میں امریکہ بذات خود بھی بہت زیادہ تبدیل ہو چکا ہے۔ کسی زمانے میں جو عالمی ادب ہوا کرتا تھا اب وہ ہمارے والدین اور کزنوں کا ادب بن چکا ہے۔ امریکی ‘عالمی ادب’ تو پڑھتے ہیں مگر اِن میں سے زیادہ تر اسے اجنبی [ادب] کے طور پر نہیں دیکھتے۔”
یہ فیسٹیول پین امیریکا نامی مصنفین کی تنظیم کا حصہ ہے جو اظہار رائے کی آزادی کا دفاع کرتی ہے۔
اس برس کے فیسٹیول کے منتظمین کو امید ہے کہ اس میں ہمارے دور کے مسائل کے بارے میں نئے نقطہائے ناظر سامنے آئیں گے۔ جن موضوعات پر بات ہوگی اُن میں مندرجہ ذیل موضوعات شامل ہیں:-
- یوکرینی مصنفین کے ایک پینل میں بیوی خاوند کا جوڑا بھی شامل ہے۔ شاعرہ اور فلمساز ایرینا سیلک نیویارک سے بات کریں گیں جب کہ اُن کے افسانہ نگار شوہر آرٹیم شیپائی چرنوبل کے ممنوعہ علاقے’ سے ورچوئل شرکت کریں گے۔ وہ چرنوبل کی فوج میں سپاہی ہیں۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان “میں ایک یوکرینی سپاہی ہوں اور میں نے اپنی موت کو قبول کر لیا ہے۔”
- جلاوطنی میں کام کرنے والے صحافیوں اور لکھاریوں کے ایک پینل میں ماشا گیسن بھی شامل ہیں۔ وہ روس کے بارے میں لکھتے ہیں جس میں اُن کی ایک کتاب بھی شامل ہے جس کا عنوان ‘ مستقبل اب تاریخ ہے:آمریت نے روس پر دوبارہ کیسے قبضہ کیا‘ ہے۔
- لاطینی امریکہ کے لکھاریوں کے ایک پینل کا موضوع ‘شناخت اُن کے کام کی کیسے صورت گری کرتی ہے۔’
- ٹانا ہاسی کوٹس اظہار رائے کی آزادی کے حملوں کے بارے میں ایک کلیدی لیکچر دیں گے۔
- ٹیلی ویژن کی ایک شخصیت، مصنف اور پکوانوں کی ماہر پدما لکشمی کھانوں اور مختلف ثقافتوں کے باہمی تبادلے کے ایک پینل میں شامل ہوں گیں۔
- ترجمے کا ایک مقابلہ بھی ہوگا جس میں مترجمین [اور چیٹ جی پی ٹی] نئے ادب کا براہ راست ترجمہ کریں گے۔ مترجمین سامعین سے اپنے اپنے ترجمے کی منظوری کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔ اینی فنیگن نیویارک یونیورسٹی کے گریجوایٹ ٹرانسلیشن پروگرام کی سربراہ ہیں۔ وہ بھی اس مقابلے میں شامل ہو رہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ “عالمی ادب نئے نقطہائے نظر سامنے لاتا ہے۔” یہ یاد رکھیں کہ بین الاقوامی ادب دو بار لکھا جا چکا ہے، ایک مرتبہ مصنف نے لکھا اور ایک مرتبہ مترجم نے لکھا۔”

بعض پروگرام براہ راست نشر کیے جائیں گے اور انہیں کیلینڈر پر ڈالا جائے گا۔ جبکہ دیگر ریکارڈ کیے جائیں گے اور اگلے ماہ کے آخر میں پین امیریکا کے سوشل میڈ اور یوٹیوب پر دستیاب ہوں گے۔
روسز شریف کہتے ہیں کہ ہر سال کا فیسٹیول لوگوں کو اُس ادب سے متعارف کراتا ہے جس میں وہ “طمانیت اور معانی تلاش کر سکتے ہیں۔”