لاطینی امریکہ کے لوگوں کی امریکہ کی قومی تفریح میں مرکزی حیثیت برقرار

بیس بال نے تھامس جیمنیز کے بچپن میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ وہ امریکی ریاست نیو میکسیکو کے دارالحکومت سانتا فے میں پلے بڑھے۔

جیمنیز اب 33 برس کے ہیں اور صحت عامہ کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ وہ تیسری جماعت سے ساتویں جماعت تک پہلے  ‘سانٹا فےٹمبر ولوز’ کے لیے اور پھر ‘ناوا تھنڈر برڈز’ کے لیے شارٹ سٹاپ اور سینٹر فیلڈ کی پوزیشنوں پر بیس بال کھیلتے رہے۔ یہ ٹیمیں محنت کشوں کے مقامی محلوں کے بچوں پر مشتمل ہوتی تھیں اور اِن کے سربراہ رضاکار کوچ ہوتے تھے۔ اس کھیل کا شوق اِن سب کھلاڑیوں کی قدرِ مشترک ہوتا تھا۔ مداحوں میں اس کھیل کے ساتھ خصوصی لگن رکھنے والے والدین، دوست، اور رشتہ دار شامل ہوتے تھے۔ پریکٹس میچوں میں بھی نعرے بازی کرنے اور بیس بال دیکھنے کے لیے آنے والے تماشائی موجود ہوتے تھے۔

جیمینز جن کے آبا و اجداد کا تعلق میکسیکو سے تھا کہتے ہیں، “ہم میں قدرتی طور پر یہ [بیس بال] موجود ہے۔ اور یہ ایک عام سی بات ہے۔”

جیمنیز کے تجربات خاص روایات کے حامل ہیں۔ امریکی تاریخ کے سمتھسونین نیشنل میوزیم میں ” پلیبول! بیریوس اینڈ دا بگ لیگز” [مقامی بستیوں اور بڑی لیگوں میں بیس بال کھیلیں] کے نام سے ایک خصوصی نمائش چل رہی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ امریکہ کی قومی تفریح [بیس بال] میں لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والوں کے شوق اور اُن کی مہارتوں نے معاشرے اور ثقافت پر کس طرح دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔

مارگریٹ سالازار پورزیو، سمتھسونین میوزیم کی منتظم ہیں۔ انہوں نے اکتوبر 2015 میں اس نمائش پر کام کرنا شروع کیا۔ وہ کہتی ہیں، “آپ لاطینیوں کے بارے میں بات کیے بغیر بیس بال کے بارے میں نہ تو سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی بات کر سکتے ہیں۔”

 بیس بال کی یونیفارم پہنے ایک آدمی کے ہاتھوں میں بیٹ پکڑا ہوا ہے۔ (Courtesy of The Clemente Museum)
رابرٹو کلیمنٹ 1967 کے آس پاس پٹسبرگ میں فوربس فیلڈ میں بیٹنگ کر رہے ہیں۔ (Courtesy of The Clemente Museum)

وہ کہتی ہیں کہ میجر لیگ بیس بال کے 30 فیصد کھلاڑی ایسے خاندانوں سے آئے ہیں جن کا میکسیکو، وسطی امریکہ، جنوبی امریکہ یا ہسپانوی زبان بولنے والے کیریبین ممالک سے گہرا تعلق ہے۔ میوزیم کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ  اس کھیل کے رابرٹو کلیمنٹ جیسے نامور ہسپانوی کھلاڑیوں کو اجاگر کرے۔ وہ ایک برق رفتار کھلاڑی تھے جو امریکی علاقے پورٹو ریکو کے بیس بال کے میدانوں سے اٹھے اور اس کھیل کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں سے ایک کھلآڑی بن گئے۔ وہ اپنی تین ہزارویں شاٹ کھیلنے کے چند ماہ بعد ایک چارٹر طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ وہ اس طیارے میں نکارا گوا میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے متاثرین کے لیے ذاتی طور پر جمع کیے گئے امدادی سامان کو لے کرنکارا گوا پہنچانے جا رہے تھے۔

تاہم مارج وِلا جیسی کم شہرت یافتہ کھلاڑی بھی اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ اُن کا شمار آل امیریکن گرلز پروفیشنل بیس بال لیگ میں شامل کی جانے والے 11 خواتین کھلآریوں میں ہوتا ہے۔ یہ خواتین کی بیس بال کی اولین اور واحد لیگ ہے۔ اس کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے دوران رکھی گئی تھی جب بہت سے مرد فوج میں خدمات انجام دینے چلے گئے تھے۔

سمتھسونین کی اس نمائش میں امریکی ریاست کینسس کے شہر، کینسس سٹی کی دوسری عالمی جنگ کے بعد کی کہانیوں کو بھی کھنگالا گیا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب اپنے ملک کے لیے لڑنے والے لاطینیوں کو کلی طور پر سفید فام لیگوں میں کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ سالازار بتاتی ہیں کہ انہوں نے اس کی بجائے اپنی لیگ بنائی اور یہ لیگ اب بھی چل رہی ہے۔

اِن لاطینی مردوں اور عورتوں کی اور غیرپیشہ ورانہ طور پر بیس بال کھیلنے والے لاکھوں لاطینی امریکیوں کی بیس بال کے لیے محبت سانجھی ہے۔ سالازار کہتی ہیں، “ہم بیس بال کی فیلڈ سے جڑے اور بڑے ہوتے ہوئے بچوں کی کئی ایک لحاظ سے [ایک] کمیونٹی بناتے ہیں۔” سالازار “لاس اینجلیس ڈاجرز” کی جسے ہسپانوی زبان بولنے والے پیار سے “لاس ڈوئرز” کہتے ہیں بچپن سے مداح چلی آ رہی ہیں۔

 بیس بال کی یونیفارم کی جیکٹ، قمیض اور نیکر۔ (Gift of Marge Villa Cryan and Renée Soderquist. Photo by Jaclyn Nash/National Museum of American History)
سمتھسونین کی نمائش میں وہ یونیفارم بھی رکھی گئی ہے جو مارج وِلا نے اس وقت پہنی تھی جب اُن کی عمر 13 برس تھی اور وہ “گریوی سٹار” نامی ٹیم میں کھیلا کرتی تھیں۔ (Gift of Marge Villa Cryan and Renée Soderquist. Photo by Jaclyn Nash/National Museum of American History)

بیس بال کے میچوں کے موقعوں پر لوگ گھر سے باہر کھانے بناتے ہیں اور پکنک مناتے ہیں اور دوستوں سے ملتے ہیں۔ مداح کیوبا کی طرح گھنٹیاں بجاتے ہیں اور پیورٹو ریکو کے چھوٹے ‘بمباس’ نامی ڈھول بجاتے ہیں۔ سالازار ایک قہقہ لگاتے ہوئے پوچھتی ہیں اس موقع پر سب سے پہلے آپ کون سی چیز کھاتے ہیں۔ وہ خود ہی جواب دیتی ہیں: “ناچوز” [ہسپانوی چِپس]

کھیل کے میدان پر ایسے میں یہ کھیل بذات خود بھی بدل رہا ہے جب شہرہ آفاق حیثیت کے مالک فراسسکو لنڈور اور ہاویئر بائز جیسے کھلاری نئے بیانیے سامنے لا رہے ہیں۔

ڈارین مارٹینیوک ‘شکاگو کبز’ نامی ٹیم کے مداح ہیں اور امریکیوں کو بیس بال کے میچ دیکھنے کے لیے لاطینی امریکہ کے ممالک میں لے کر جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “اگر آپ برسوں پر پھیلی اس کھیل [کی تاریخ] پر نظر دوڑائیں تو یہ سوچ کم و بیش مستقل طور پر نظر آتی ہے۔” پچھلی نسلوں کے کھلاڑی جب کوئی ہوم رن کی شاٹ لگاتے تھے یا کوئی غیر معمولی تھرو کرتے تھے تو وہ زیادہ جذبات کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ جیسے جیسے کھیل میں تنوع آتا جا رہا ہے یہ سب کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ” اب کھلاڑی اپنی جیتوں کا جشن مناتے ہیں۔ وہ اچھلتے کودتے ہیں۔ وہ اشارے کرتے ہیں۔ وہ کھیل میں بہت زیادہ جذبات شامل کرتے ہیں۔ جب وہ محنت کر رہے ہیں  تو وہ جیت سے لطف اندوز کیوں نہ ہوں؟

جہاں تک جیمنیز کا تعلق ہے انہوں نے خود کئی برسوں سے بیس بال نہیں کھیلا۔  لیکن یہ چیز انہیں اپنی پسندیدہ ٹیم “یانکیز” کی  حمایت کرنے سے نہیں روکتی۔ وہ ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، “ایک وقت تھا کہ [ایسی] کوئی چیز نہیں تھی جو مجھے کھیلنے سے روک سکے۔ بے تحاشا پسندیدہ لمحات ہیں۔”

فری لانس لکھاری، ٹِم نیوِل نے یہ مضمون لکھا۔