امریکہ کے وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن نے 13 اور 14 ستمبر کو ایسے وقت پر لندن کا دورہ کیا جب بین الاقوامی لیڈر شمالی کوریا پر شدید دباؤ ڈال رہے ہیں اور لیبیا میں پائیدار امن کی تلاش میں ہیں۔
ٹِلرسن نے امریکہ کی برطانیہ کے ساتھ دوستی کا اعادہ کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے بالخصوص سلامتی اور دہشتگردی کی مشکلات کا حوالہ دیا اور کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کے درمیان “خصوصی تعلقات آج بھی اتنے ہی خصوصی ہیں جتنے کہ ہمیشہ سے چلے آ رہے ہیں۔”

ٹلرسن نے اپنے ہم منصب بورس جانسن اور برطانوی وزیراعظم تھیریسا مے کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے دوران امریکہ اور برطانیہ کی دوستی کو مزید مضبوط بنانے کا وعدہ کیا۔
مشترکہ خدشات
شمالی کوریا کے 3 ستمبر کو کیے جانے والے غیرقانونی جوہری تجربے کے جواب میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 11 ستمبر کو شمالی کوریا کے خلاف اضافی پابندیاں عائد کیں۔ ٹلرسن نے کہا کہ یہ ردعمل ظاہرکرتا ہے کہ متحدہ عالمی برادری، جوہری ہتھیاروں سے مسلح شمالی کوریا کے خلاف ہے۔
ٹِلرسن نے 13 ستمبر کو کہا، ” شمالی کوریا کی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف ہماری کاوشوں سے متعلق برطانوی حمایت انتہائی مددگار اور انتہائی مضبوط چلی آ رہی ہے۔”
ٹِلرسن صدر ٹرمپ کے اس خیال سے متفق ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ایک چھوٹا قدم تھی۔ ٹلرسن نے کہا، “ہمیں سلامتی کونسل سے کہیں زیادہ سخت قرارداد کی امید تھی۔” مگر اُنہیں یقین ہے کہ اس قرارد سے بہت سی کامیابیاں حاصل ہوں گی جن میں ٹیکسٹائل کی برآمدات کی مکمل ممانعت بھی شامل ہے جس سے شمالی کوریا کی حکومت کو 80 کروڑ ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔
ٹلرسن نے کہا، “یہ قرارداد یقیناً “شمالی کوریا کی حکومت کو ایک مستقل پیغام دیتی ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم اُنہیں جو شمالی کوریا کی کاروائیوں میں مدد کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ پیغام دیتی ہے کہ بین الاقوامی برادری شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں … کے پھیلاؤ اور تیاری کے پروگرام کی سنجیدگی کے بارے میں ایک مشترکہ نقطہ نظر رکھتی ہے۔”
امریکی سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے ٹِلرسن نے “لیبیا کو اکٹھا کرنے” کے لیے امریکہ کی حمایت کا وعدہ بھی کیا۔ انہوں نے لیبیا کے لوگوں کی ایک فعال حکومت کی بحالی کے لیے لیبیائی حل کی تلاش کی ضرورت کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری کی مدد پر زور دیا۔
ایران اور برما کے بارے میں
14 ستمبر کو برطانوی وزیر خارجہ جانسن کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران ٹِلرسن نے ایران کی جانب سے اقوام متحدہ کی حمایت سے طے پانے والے ایک جوہری سمجھوتے کی پابندی کے موضوع پر بات کی۔ انہوں نے کہا، “ہماری نگاہ میں میں ایران [مشترکہ جامع منصوبے پر عمل] کی توقعات پر صاف طور پر پورا نہیں اتر رہا۔ … لہذا ہمیں ایران کی مجموعی سرگرمیوں پر غور کرنا ہوگا اور ہمیں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت واحد جوہری سمجھوتے سے نہیں ہونے دینا چاہیے۔”
ٹِلرسن نے برما میں حالیہ تشدد کے بارے میں بات کی جس سے ایک اقلیتی نسلی گروپ کے لاکھوں روہنگیا لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ ٹلرسن نے کہا، “میرے خیال میں بہت سے حوالوں سے یہ اس ابھرتی ہوئی نئی جمہوریت کے لیے ایک عہد ساز لمحہ ہے۔”
انہوں نے کہا، “میرا خیال ہے کہ یہ عالمی برادری کے لیے اہم ہے کہ وہ لوگوں کی نسلیت سے قطع نظر اُن کے ساتھ سلوک سے جڑی توقع کی حمایت میں آواز بلند کرے۔ یہ تشدد ہر صورت بند ہونا چاہیے۔ یہ ظلم و ستم ہر صورت بند ہونا چاہیے۔”