ملڈرڈ اور رچرڈ لوونگ کو آپس میں محبت تھی اور انہوں نے وہی کچھ کیا جو بہت سے جوڑے کرتے ہیں۔ انہوں نے شادی کر لی۔
یہ 1958ء کا زمانہ تھا۔ کیونکہ وہ سیاہ فام تھیں اور وہ سفید فام تھا، اس لیے ورجینیا کی ریاست نے اُن کی شادی کو غیرقانونی قرار دیدیا۔
لوونگز اپنی قانونی جنگ امریکہ کے سپریم کورٹ تک لڑتے رہے۔ اور سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ریاستی حکومتیں بین النسلی شادیوں پر پابندی نہیں لگا سکتیں۔ یاد رہے کہ امریکہ میں شادیوں سے متعلق قوانین ریاستیں بناتی ہیں۔

لوونگز جوڑے کی محبت
لوونگز جوڑا ڈسٹرکٹ آف کولمبیا (واشنگٹن) میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوا جہاں اس وقت بین النسلی شادیوں کو قانونی حیثیت حاصل تھی۔ تاہم وہ ورجینیا میں رہتے تھے جہاں کے قوانین نے اُن کے ملاپ کو ایک جرم بنا دیا۔ جب اُن پر فرد جرم عائد کی گئی تو لوونگز نے اقبال جرم کیا اور ایک مقامی جج نے اُن کی ایک سالہ قید کی سزا کو معطل کر دیا بشرطیکہ وہ ورجینیا چھوڑ دیں۔ لہذا انہوں نے ورجینیا چھوڑا اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں رہنے کا انتخاب کیا۔
چند سال بعد، امریکی وزیر انصاف، رابرٹ کینیڈی اور شہری آزادیوں کی امریکی یونین کی مدد سے اس جوڑے نے ملک کی اعلٰی ترین عدالت کی جانب اپنے قانونی سفر کا آغاز کیا۔
امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت تمام امریکیوں کو حاصل مساوی قانونی تحفظ کی ضمانت کا حوالہ دیتے ہوئے، سپریم کورٹ نے ورجینیا کے جج کے فیصلے کو کالعدم اور “نسلی خالص پن کے قوانین” کو غیر آئینی قرار دیدیا۔
چیف جسٹس ارل وارن نے اس فیصلے میں جس نے پورے امریکہ میں بین النسلی شادیوں کو قانونی بنا دیا تھا، لکھا، “ہمارے آئین کے مطابق کسی دوسری نسل کے شخص کے ساتھ شادی کرنے کی آزادی، یا نہ کرنے کی آزادی، اُس شخص کا انفرادی فیصلہ ہے اور ریاست اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی۔”
کشادہ دل
ایک جاپانی ریستوران کے شیف، 36 سالہ لوکس ارون نے کہا، “مجھے یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔”
ارون نے کہا اگر لوونگز ایسا نہ کرتے تو اُن کی سفید فام والدہ اور نصف جاپانی نژاد والد 1980 کی دہائی میں شادی نہیں کر سکتے تھے۔
1967ء کے فیصلے سے لے کر آج تک امریکہ میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے درمیان شادیوں میں تسلسل سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ اضافہ امریکی شادیوں کے 3 فیصد سے بڑھکر 19 فیصد ہو گیا ہے اور اس میں تیز ترین اضافہ ہسپانوی اور غیرہسپانوی سفید فاموں کے درمیان ہونے والی شادیوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔

امریکہ کی ہر ایک ریاست میں بین النسلی شادیوں کے حامل گھرانوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پیو ریسرچ سنٹر کی کِم پارکر کہتی ہیں کہ لوونگ کے مقدمے نے اس طرح کی شادیوں کی قبولیت کے ایک نئے دور کے آغاز کا “لوگوں پر دروازہ کھولا۔” انہوں نے کہا کہ جب لوگوں کو “اپنے خاندان یا برادری یا عمومی طور پر معاشرے” سے مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تو اُن کے لیے اپنی نسل سے باہر شادی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
امریکی سماجی رجحانات پر تحقیق کی راہنمائی کرنے والی، پارکر نے کہا لوونگ مقدمے کے علاوہ دیگر دو عناصر بھی کارفرما ہوتے ہیں۔
1965ء کے امیگریشن اور شہریت کے قانون کے تحت لاکھوں ایشیائی اور لاطینی امریکی تارکین وطن امریکہ آئے اور اس کے نتیجے میں یورپی لوگوں کے حق میں جانے والا کوٹے کا نظام ختم ہو گیا۔ آج کے امریکی زیادہ متنوع ہیں۔
پارکر نے کہا کہ آج کے نوجوان بین النسلی شادیوں کو نہ صرف قابل قبول سمجھتے ہیں بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ امریکہ کے حق میں بھی اچھی ہیں۔
یہ مضمون 11 فروری 2021 کو ایک بار پہلے بھی شائع کیا جا چکا ہے۔