لیبارٹری کے کوٹ پہنے ہوئے پانچ عورتیں (L'Oréal USA)
2016 کی سائنس کی فیلوعورتیں ریاست نیو جرسی کے شہر کلارک میں واقع لا آرے آل کی تحقیق اور اختراعی لیبارٹریوں کے دورے کے دوران۔ (L'Oréal USA)

عورتوں کے لیے سائنسی تحقیق کے ان شعبوں میں کام کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، جن میں مردوں کا غلبہ  ہوتا ہے۔ مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر میں  تحقیق کرنے والوں میں عورتوں کی تعداد ایک تہائی سے بھی کم ہے۔

لیکن ایسی لڑکیوں اور عورتوں کو جو سائنس، انجنئیرنگ یا ریاضی میں دلچسپی رکھتی ہیں، نوجوان اور کامیاب عورتوں کے ایک گروپ نے کچھ مشورے  دیئے ہیں۔ رہنمائی فراہم کرنے والی ان عورتوں کو یہ احساس ہے کہ وہ کس موضوع پر بات کر رہی ہیں ــــــ ان سب نے حال ہی میں ڈاکٹریٹ کے بعد اپنے شعبوں میں  مطالعے کو جاری رکھنے اور ایک نوجوان نسل کے لیے  رول ماڈل کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے، سائنس میں عورتوں  کے پروگرام کے لیے  L’Oréal USA  [لو رےآل، یو ایس اے] سے وظیفے حاصل کیے ہیں۔

ذیل میں وہ ان رکاوٹوں کے بارے میں بات کر رہی ہیں جن کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ساتھ  وہ ان لڑکیوں اور نوجوان عورتوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہی ہیں جو ان کی پیروی کرنا چاہتی ہیں۔

ایک عورت بازو سمیٹے ہوئے کھڑی ہے۔ (Courtesy of L'Oreal USA)
ایمی آسبرن (L’Oréal USA)

سائنس میں عورتوں کے لیے اعزازت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے 32 سالہ ایمی آسبرن نے کہا، ’’ہم ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ نصف آبادی دنیا بھر کی ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے؟ ہمارے لیے ضروری یہ ہے کہ سب اس میں شریک ہوں۔‘‘ وہ ایک نیورو سائنٹسٹ ہیں اور نیو یارک یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’ میرے لیے سب سے بڑا چیلنج خود اپنے اعتماد سے نبرد آزما ہونا تھا۔ میرے خیال میں  ہمیں عورتوں اور لڑکیوں کو یہ سکھانا چاہیے کہ ناکامی اس بات کی علامت نہیں ہے کہ آپ یہ کام نہیں کرسکتیں۔ آپ کو صرف توجہ دینے، سخت محنت کرنے، کام کرنے اور بار بار کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

کلاس روم میں ایک عورت طالبات کی مدد کر رہی ہے ( بشکریہ (L'Oréal USA
انیلا چوائے ایک سائنسی تجربے میں پرائمری سکول کی طالبات کی مدد کر رہی ہیں (L’Oréal USA)

33 سالہ انیلا چوائے نے سائنس دان بننے کی آرزو مند لڑکیوں سے کہا، ’’جواب تلاش کرنے کی کوششیں ہمیشہ جاری رکھیں … جوابوں کی نسبت سوال ہمیشہ ہی زیادہ  ہوتے ہیں، اور بعض اوقات آپ کو حقیقتاً یہ محسوس ہوگا کہ وہ سوالات آپ پر حاوی ہو جائیں گے۔‘‘

چوائے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد کیلی فورنیا میں مانٹیرے بے ایکوریم ریسرچ  انسٹی ٹیوٹ میں، بیالوجی [حیاتیات]،  سمندری علم اور سمندری ماحولیات کی فیلو کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سائنس کی طالبات کو جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا ہوتا ہے وہ  یہ  ہے کہ ا ن اداروں میں با اختیار مناصب پر بہت زیادہ عورتیں فائز نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر صنف کے اعتبار سے تناسب کو دیکھیں تو اس میں انڈر گریجوایٹ سکول سے لے کر گریجوایٹ سکول اور پھر اساتذہ کی سطح  تک، [صنفی لحاظ سے] ایک بڑا ڈرامائی فرق نظر آتا ہے۔‘‘

لیبارٹری میں کھڑی مسکراتی ہوئی ایک خاتون (Courtesy of L'Oréal USA)
شروتی نائک (L’Oréal USA)

31 سالہ شروتی نائک نیویارک کی راک فیلر یونیورسٹی میں امیونولوجی اور سٹیم سیل بیالوجی کی سائنسدان ہیں۔ انہوں نے اس شعبے میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ وہ آپ کو صرف ایک ہی  مشورہ دیتے ہوئے کہتی ہیں، “‘بہادر بنیے۔’ جب لوگوں کو آپ پر اعتماد نہیں ہوتا یا آپ خود اپنے آپ پر اعتماد نہیں رکھتیں  ــــــ اور  ایسا بہت مرتبہ  ہوتا ہےــــــ اس وقت بہادر بنیے اور کام کر ڈالیے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک بار  جب آپ اپنے خوف سے  نجات حاصل کر لیں گی تو پھرآپ کیا کیا کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔” شروتی نائک کا کہنا ہے کہ عورتوں کو سب سے بڑے جس چیلنج کا سامنا کرنا ہوتا ہے  وہ  اپنی [صلاحیتوں] کے بارے میں مشکوک ہونے کا چیلنج ہے۔

’’عورتوں میں خود اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے کا ایک ایسا رجحان پایا جاتا ہے جسے ختم کرنے میں ماحول حقیقی طور پرکوئی مدد نہیں کرتا۔ ہمیں ان کی مزید حوصلہ افزائی کرنے اور زیادہ کھل کر اُن کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔”

لیبارٹری کوٹوں میں ملبوس عورتیں ایک پرچہ دیکھ رہی ہیں (Courtesy of L'Oréal USA )
موریل زیلی کوفسکی، بائیں سے دوسری (L’Oréal USA)

33 سالہ موریل زیلی کوفسکی کا کہنا ہے، ’’عورتوں میں مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل دریافت کرنے کی ایک مخصوص صلاحیت ہوتی ہے، اور میرا خیال ہے کہ ہم ایک نیا انداز اور ایک نیا نقطہ نظرلے کر آتی ہیں۔  مجھے بڑی خوشی ہے کہ یہ تبدیلیاں سائنس کو آگے بڑھا رہی ہیں۔‘‘

زیلی کوفسکی “کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی” کے بیالوجی اینڈ  بیالوجیکل انجنئیرنگ ڈویژن میں نیورو سائینٹسٹ ہیں اور انہوں نے اس شعبے میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ فی الوقت سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں اعلیٰ ترین مناصب پر کم عورتیں فائز ہیں، تاہم اب زیادہ بڑی تعداد میں عورتیں انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ سطحوں پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں اس وقت ہر گز آرام سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔ جیسا کہ ہم سائنس میں کہتے ہیں کہ آخری 10 فیصد کام ہمیشہ مشکل ترین ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں حقیقی معنوں میں یہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں ذرہ برابر ادھر ادھر نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

31 سالہ لارا سیمپسن، ایلانوائے کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں ماہر فلکیات ہیں۔ اُن کی گریجویٹ سکول کی پڑھائی کے دوران ریاضی اور طبعیات کے مضامین پڑھانے کے لیے کوئی خاتون پروفیسر نہیں تھی۔ اور اسی وجہ سے ان کے ذہن میں نوعمر طالبات کی مدد کے لیے رہنمائی کا پروگرام  شروع کرنے کا خیال آیا۔

دیوار کے سامنے کھڑی ہوئی ایک عورت (Courtesy of L'Oréal USA )
لارا سیمپسن (L’Oréal USA)

نئی نسل کے لیے ان کا مشورہ یہ ہے، ’’ آپ کو سائنس دانوں کے پاپ کلچر میں پیش کیے گئے تصور کے باعث بد دل نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر سی بات ہے کہ آپ کا سائنس دان بننے کے لیے مرد ہونا ضروری نہیں۔ تاہم آپ کو لکیر کا فقیر ہونے اور اپنی دنیا میں گم رہنے کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘ میری اور میرے ساتھیوں کی طرح، آپ بھی سائنس سے ہٹ کر دیگر دلچسپیوں اور مشغلوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں سائنس دان خواتین

سائنس میں عورتوں کے لیے بین الاقوامی اعزازات کا ایک پروگرام لو رے آل– یونیسکو، 1998 میں شروع کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت دنیا بھر میں، کامیاب سائنس دان خواتین کی نشان دہی اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس بین الاقوامی پروگرام اور امریکہ کے پروگرام جیسے لگ بھگ 50 دیگر قومی اور علاقائی پروگراموں کے ذریعے 100 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والی تقریباً 2,500 سائنس دان عورتوں کو سائنسی تحقیق جاری رکھنے کے لیے وظیفے فراہم کیے گئے ہیں۔