عام طور پر لوگ قبر پر دعائیہ تقریب کا بندوبست کرنے کی وجہ سے کسی مشکل میں گرفتار نہیں ہوتے۔ مگر شرط یہ ہے کہ آپ ایران میں نہ رہ رہے ہوں۔

تہران کی انقلابی عدالت نے تین نامور مصنفین کو چھ چھ سال کی قید کی سزا دی ہے۔ اِن مصنفین کے نام بکتاش آبتین، رضا خندان-مہا آبادی اور کیوان باژن ہیں۔

اِن کا جرم کیا ہے؟ ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کے مطابق انہوں نے ایرانی مصنفین کی انجمن یعنی آئی ڈبلیو اے کے نیوز لیٹر میں فن اور ادب پر عائد سرکاری سنسر شپ کی مخالفت کی اور آئی ڈبلیو اے کے مشہور اراکین،  محمد مختاری، اور جعفر پویندہ کی قبروں پر دعائے مغفرت کا انتظام کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سال 2000 کی رپورٹ کے مطابق شاعر مختاری، اور مصنف پویندہ کا شمار “1998 میں غائب ہونے والوں اور مشکوک حالات میں موت کا شکار ہونے والے لوگوں کے ایک طویل سلسلے سے ہے۔”

ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ:

پرامن طور پر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے والے مصنفوں اور صحافیوں کو نام و نہاد عدالتوں کی وجہ سے جیلوں میں بند کرنا انصاف کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ http://bit.ly/2W9tiRN . #Iran #FreeSpeech  

ٹویٹ کرنے کی وجہ سے بھی مصنفین اور وکلاء کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔

حکومت کی مبینہ بدعنوانی کے بارے میں مئی میں ٹویٹ کرنے والے ایک صحافی مسعود کاظمی کو جج محمد مغیث نے دو سال قید کی سزا سنائی۔ یہ وہی جج ہے جس نے تین مصنفوں کو سزا دی تھی۔

مقدمے کے دوران جج مغیث نے کاظمی کو بتایا، “تم لوگوں کو سانس لینے کا حق نہیں؛ تمارے ہاتھوں کو توڑ دینا چاہیے؛ تمہارے منہ میں بارود ڈال کر تمہیں اڑا دنیا چاہیے؛ تمہارے قلموں کو توڑ دینا چاہیے۔”

ایران کی انقلابی عدالت نے حال ہی میں امیر سالار داوودی کو 30 سال قید اور 111 کوڑوں کی سزا دی ہے۔ اُن کا جرم سوشل میڈیا کی اپنی پوسٹوں کے ذریعے ایران میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کی اطلاع کے مطابق داوودی اُن دو وکلائے صفائی میں شامل ہیں جن پر “ملک کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے” اور “سرکاری اہل کاروں کی بے عزتی کرنے” کا الزام لگایا گیا ہے۔ نسرین ستودہ کو اپنے موکلین کا پرامن طریقے سے دفاع کرنے پر 148 کوڑوں اور 38 برس کی قید کی سزا دی گئی ہے۔ ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کی اطلاعات کے مطابق جیل میں قید وکیل صفائی، محمد نجفی کو19 سال کی قید کا سامنا ہے۔

Woman embracing young boy (© Behrouz Mehri/AFP/Getty Images)
وکیل صفائی نسرین ستودہ 2013ء میں اپنے بیٹے کے ہمراہ۔ (© Behrouz Mehri/AFP/Getty Images)

ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کے ڈائریکٹر، ہادی غائمی کہتے ہیں کہ وکلاء کو اُن کے فرائض پورے کرنے سے روکنے کی وجہ سے “متحرک کارکن، صحافی، منحرف اور حکومت کے نقاد ایک جابر نظام میں اپنے دفاع سے محروم ہو جاتے ہیں۔”

ایران کی حکومت کی پہنچ سے کچھ بھی دور نہیں ہے۔ اس سال کے اوائل میں ایرانی حکام نے ایک آدمی کو اپنی محبوبہ کو سرعام شادی کا پیغام دینے کی وجہ سے گرفتار کرلیا اور موسیقی کے ایک بینڈ کے مظاہرے کو اس لیے منسوخ کر دیا کیونکہ یہ بہت “خوش کن” تھا۔