امریکہ میں مزدور یونینوں کی رکنیت میں کمی کے باوجود محنت کشی کے ماہرین یونینوں میں نئی جان پڑنے کی علامات دیکھ رہے ہیں۔ رکنیت میں کمی کا تعلق سیاست اور مصنوعات سازی کی صنعت میں ملازمتوں میں کمی سمیت بہت سی دیگر وجوہات سے ہے۔

آج چھ فیصد امریکی مزدور کسی نہ کسی یونین کے رکن ہیں۔ اپنے عروج پر1954 میں یہ شرح 35 فیصد تھی جو 1983 میں کم ہوکر 17 فیصد پر آ گئی تھی۔ مگر حالیہ چھ ماہ (اکتوبر 2021 تا مارچ 2022) میں ایک سال پہلے اسی مدت کے مقابلے میں یونین سازی کی درخواستوں میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔

حکومتی انتظامیہ اور ٹرانسپورٹیشن کی صنعتوں میں کام کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد یونینوں میں شامل ہوتی ہے۔ اسی طرح تعلیم، صحت، تعمیرات اور معلومات (اشاعت، موشن پکچرز، براڈکاسٹنگ، ڈیٹا پروسیسنگ) کے شعبوں میں کام کرنے والے بھی یونینوں میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں۔
یونین سازی کی سرگرمیوں میں تیزی سے ہونے والے اضافے کا تعلق ایئر لائن، خوردہ فروشی اور ٹیکنالوجی کی صنعتوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین میں دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ اضافہ اُن کے اپنے اپنے شعبوں میں زیادہ جاندار کردار ادا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یونین سازی کے حق میں تاریخی ووٹوں کے بعد مزدور تحریک میں اب ڈیلیوری ڈرائیور اور چائے خانوں میں کام کرنے والے ملازمین بھی شامل ہوگئے ہیں۔
کاروباروں کے مالکان اور محنت کش، دونوں اپنی اپنی جگہ پر یونین سازی کے بارے میں بڑے حساس ہیں۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ یونینیں ملازمین کے بہتر اوقات کار، تنخواہوں، مراعات اور کام کے حالات کے بارے میں مذاکرات کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس مخالفین کہتے ہیں کہ یونینیں مالی بوجھ کا سبب بنتیں ہیں اور کاروباروں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔
صدر بائیڈن نے اس بات کا خصوصی طور پر ذکر کیا کہ امریکی قانون میں ہر امریکی محنت کش کو یونین میں شامل ہونے کے آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کے حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ یونینوں میں شامل ہونے والے کارکنوں کو “اُن فیصلوں پر اختیار حاصل ہوتا ہے … جو اُن کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ … سادہ الفاظ میں یونین کا مطلب جمہوریت کی موجودگی ہے۔”

یونینیں کیسے بنتی ہیں
محنت کشوں کے تعلقات کا قانون “نیشنل لیبر ریلیشن ایکٹ” 1935 میں عظیم کساد بازاری کے دوران منظور ہوا اور صدر فرینکلن روزویلٹ نے اس قانون پر دستخط کیے۔ یہ قانون مزدوروں کے یونین بنانے کے حق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اِس قانون کے تحت “نیشنل لیبر ریلیشنز بورڈ” (این ایل آر بی) کے نام سے ایک بورڈ تشکیل دیا گیا۔ یہ ایک خود مختار سرکاری ادارہ ہے جو کارکنوں کی یونین سازی کی نگرانی کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کے یونین بنانے کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کی تصدیق کرتا ہے، اور نیشنل لیبر ریلیشن ایکٹ کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرتا ہے اور یونینوں اور نجی شعبے کے آجروں کے درمیان تنازعات کو حل کرتا ہے۔
اگر کسی کمپنی، سرکاری ادارے یا تنظیم کے ملازمین یونین بنانا چاہیں تو وہ مندرجہ ذیل دو طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کر سکتے ہیں:-
1۔ اگر کم از کم 30% محنت کش کارڈوں پر یا کسی درخواست پر دستخط کر دیں کہ وہ یونین بنانا چاہتے ہیں تو این ایل آر بی الیکشن کرواتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اگر مزدوروں کی اکثریت یونین کے حق میں ووٹ دے تو یہ بورڈ، یونین کو اپنے آجر کے ساتھ اجتماعی سودے بازی میں کارکنوں کی نمائندگی کرنے کی تصدیق کر دیتا ہے۔
2۔ آجر شواہد کی بنیاد پر رضاکارانہ طور پر بھی یونین کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ محنت کشوں کی اکثریت کا یونین بنانے کے حق میں تیار کیے جانے والے کارڈوں پر دستخط کرنا اس کی ایک عام مثال ہے۔

یونینیں کیا کرتی ہیں
جب کسی یونین کی حکومتی سطح پر تصدیق ہو جاتی ہے اور اسے تسلیم کر لیا جاتا ہے تو آجر کو یونین کے ایک نمائندے کے ساتھ ملازمت کی شرائط اور حالات پر سودے بازی کرنا ہوتا ہے۔ تقریباً نصف سے زائد یونینوں کو آجروں کے ساتھ اپنا پہلا معاہدہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ جاتا ہے۔
یونین کے ذریعے طے کردہ بہتر تنخواہیں اور شرائط غیرسفید فام، خواتین یا معذور کارکنوں سیمت خاص طور پر ان کارکنوں کے لیے اہمیت رکھتی ہیں جو عدم شمولیت یا امتیازی سلوک کے خطرات سے ممکنہ طور پر دوچار ہوسکتے ہیں۔
یونینیں محنت کشوں کو کم از کم اجرت، اوور ٹائم تنخواہ، کام کے محفوظ حالات، اجتماعی سودے بازی اور امتیازی سلوک سے پاک کام کی جگہ کے سلسلے میں اپنے حقوق کے استعمال پر کی جانے والی غیر قانونی انتقامی کارروائیوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
مزید یہ کہ یونینیں اپنے اراکین پر ترقی کرنے کے نئے دروازے کھولتی ہیں۔ وہ نئے کارکنوں کی بیک وقت تعلیم و تربیت کے نئے پروگراموں جیسے منصوبے بناتی ہیں جس کے نتیجے میں یہ کارکن اچھی تنخواہوں والی ملازمتیں حاصل کر سکتے ہیں۔

فری لانس مصنفہ، ہولی روزن کرینٹز نے یہ مضمون لکھا۔