اقوام متحدہ کا ایک ادارہ نیشنل جیوگرافک اور جنگلی حیات کے عالمی فنڈ کے ساتھ مل کر یہ یقینیی بنانے کے لیے ایرانی حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے اُن آٹھ ماہرین کو منصفانہ طور پر مقدمہ چلائے جانے کا موقع دیا جائے جنہیں ایران کی پاسدارانِ انقلاب کی خفیہ عدالت میں الزامات کا سامنا ہے۔

اِن آٹھ ماہرین کو 2018ء میں اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایران میں ماحولیات اور ایشیائی چیتے اور فارسی تیندوے جیسی (جن کی تعداد 50 سے بھی کم رہ گئی ہے) معدومی کے خطرات سے دوچار انواع  کے بارے میں عوامی آگاہی میں اضافہ کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ اِن میں سے بعض کو سزائے موت کا سامنا ہے۔

اُس وقت  سے انہیں  جیل سے باہر کسی سے رابطے کے بغیر قید میں رکھا گیا ہے۔ انہیں اسلامی پاسدارانِ انقلاب کی افواج کے زیرِ کنٹرول بدنامِ زمانہ ایون جیل میں لمبے عرصوں تک قید تنہائی میں بھی  رکھا جا رہا ہے۔ انہیں قانونی نمائندگی تک محدود سی رسائی حاصل ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیات کے پروگرام کا کہنا ہے، “ہمیں حال ہی میں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق قید کیے گئے افراد کو مناسب وکیل اور قانونی نمائندگی تک رسائی حاصل نہیں  ہے اور یہ انتہائی پریشان کن بات ہے۔”

فروری 2018ء میں “ایرانی جنگلی حیات کے ورثے کی فاؤنڈیشن” سے تعلق رکھنے والے تحفظ ماحولیات کے ماہرین کی گرفتاری کے بعد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے کہا، “یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ ایران کے حیوانات اور نباتات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کو ایرانی مفادات کے خلاف جاسوسی کرنے سے منسلک کرنا کیسے ممکن ہے۔” ماہرین کا کہنا ہے، ” قومی ماحول کو محفوظ بنانے اور اُسے تحفظ دینے کے تحفظ ماحولیات کے ماہرین  کے کام کو اُن کی گرفتاری اور سزا کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔”

یہ آٹھوں ایرانی جنگلی حیات کے ورثے کی فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر کاووس سید امامی کے رفقائے کار ہیں جنہیں جنوری 2018 میں “جاسوسی” کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اپنی گرفتاری کے 17 دن بعد ایون جیل میں پوچھ گچھ کے دوران امامی مشکوک حالات میں انتقال کر گئے۔

اُن کی ہلاکت کے بعد اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا، “نہ صرف انہیں بے بنیاد الزامات پر گرفتار کیا گیا بلکہ حراست میں اُن کی موت بھی کسی سازش کا پتہ دیتی ہے۔۔ ایرانی حکومت کے بے شمار اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ ماحولیات کے  ماہرین جاسوس ہیں۔

جنگلی حیات کے ماہرین کو جیل میں کیوں ڈالا جائے؟

Urial herd standing on rocks (© Nature Picture Library/Alamy)
ایران کے سمنان صوبے میں واقع خار تران نیشنل پارک میں اڑیال چٹانوں پر کھڑے ہیں۔ یہ جانور معدومی کے خطرے سے دوچار جنگلی بھیڑوں کی ایک ذیلی نوع ہیں۔ (© Nature Picture Library/Alamy)

ایرانی حکام ماحولیات پر کام کرنے والے افراد کو خود ساختہ الزامات کی بنیاد پر اس لیے گرفتار کرتے ہیں کیونکہ وہ اکثر اُن زمینوں کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جو پاسداران انقلاب کی افواج یا تو میزائلوں کے تجربات کرنے یا اپنے تجارتی مفادات کی خاطر ڈیم تعمیر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

گرفتار کیے جانے والے آٹھ ماہرین میں یہ لوگ شامل ہیں: نیلوفر بیانی، طاہر غادریان، امیر حسین خلقی، ہومان جوکار، سپدے کاشانی، عبد رضا کوہپے، سیم رجبی اور مراد طاباز۔

اقوام متحدہ کے ماحولیات کے ادارے نے کہا، “ہمیں علم ہے کہ ایرانی اپنے قدرتی ورثے کو کتنا بیش قیمت سمجھتے ہیں۔ ہم  حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کے منفرد ماحول کے پرخلوص خادموں کے اُن حقوق کا تحفظ کرے جن کی ایرانی قوانین  اور آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔”