مادورو نے وینزویلا میں زندگی کو کیسے تباہ کیا

نکولس مادورو کی سربراہی میں چلنے والی غیرقانونی حکومت کی بدانتظآمی، ظلم و ستم اور بدعنوانی، وینزویلا میں بڑے پیمانے پر معاشی مصائب اور معاشرتی بدحالی لے کر آئی ہے۔

کراکس کی آندریس بیلو کیتھولک یونیورسٹی کے محققین نے ایک سروے شائع کیا ہے۔ اس سروے کا عنوان 2019-2020 حالاتِ زندگی کا قومی سروے ہے۔ ہسپانوی زبان میں یہ سروے (ای این سی او وی آئی یا انکوسٹا ناسیونال دو کونڈیسیوں دو ویدا) کہلاتا ہے- اس سروے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ 2014 کے بعد سے بنیادی ڈھانچہ، لیبر مارکیٹ اور تعلیم کس طرح زوال کا شکار ہوئے۔

اقوام متحدہ نے تخمینہ لگایا ہے کہ وینیزویلا کے 70 لاکھ  شہری یعنی ملک کی 25 فیصد آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ ای این سی او وی آئی کے مطابق وینیزویلا کے شہریوں کی حیران کن تعداد، یعنی 96 فیصد غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق، پانی اور بجلی کی عدم دستیابی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔  صرف 77 فیصد آبادی کو نل کے پانی تک رسائی حاصل ہے۔ ان میں سے بھی تین چوتھائی افراد کا کہنا ہے کہ پانی بار بار بند ہوجاتا ہے۔ میڈیا میں لوگوں کو گلیوں میں کھڑے پانی کو نہانے، کھانا پکانے اور پینے کے لیے استعمال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

 گندے پانی میں کھیلتے ہوئے دو بچے (© Matias Delacroix/AP Images)
28 جولائی کو کراکس، وینیزویلا میں بچے گلی میں کھلے پانی میں کھیل رہے ہیں۔ (© Matias Delacroix/AP Images)

حکومت کی طرف سے مسلط کردہ سرکاری بلیک آؤٹ اور ملک بھر میں بجلی کی سہولتوں کے عام انحطاط کی بدولت، وینیزویلا کے 90 فیصد لوگوں کو بجلی تک قابل اعتماد رسائی حاصل نہیں رہی۔ کراکس سے باہر زولیا، بولیوار اور بریناس جیسی ریاستوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں  بجلی کئی کئی دن مسلسل غائب رہتی ہے۔

ای این سی او وی آئی کے سروے کے ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ مادورو حکومت کے  ظلم وجبر، بدعنوانی اور اقتصادی بدانتظامی نے وینیزویلا کے کام کرنے والے 44 فیصد شہریوں کو بے روزگاری سے دوچار کر دیا ہے۔

ڈیٹا کو اگر غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ روزگاروں کی صورت حال اس سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔ 2015ء سے لے کر آج تک روائتی شعبے میں متعینہ اوقات کار، تنخواہوں اور مراعات والے ملازموں کی شرح 64 فیصد سے گر کر 46 فیصد پر آ گئی ہے۔

روائتی شعبے میں رہ جانے والے بہت سے ملازم شدید قسم کی نیم بے روزگاری کا شکار ہیں۔ انہیں اتنی تنخواہ بھی نہیں ملتی جو اُن کے بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہو۔

اس کے نتیجے میں وینیزویلا کے شہریوں کو غیرروائتی شعبے میں ملازمتیں ڈھونڈنا پڑتی ہیں۔ نتیجتاً اِن ملازموں کی نہ تو صحت کی انشورنس ہوتی ہے اور نہ ہی اُن کی آمدنی مستقل ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وینیزویلا کے لوگوں کو اپنے کنبے کے کھانے پینے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ غیر روائتی شعبے میں اضافہ ملک میں غربت میں شدید اضافے کا باعث بنتا ہے۔

 سلاخوں والی کھڑکی کے آرپار دو لوگ اور کمرے میں ٹیبلٹ کو دیکھتا ہوا ایک بچہ (© Matias Delacroix/AP Images)
ایسابل کوویڈو جو بچوں کے لباس فروخت کیا کرتی تھیں، آج کل کراکس، وینیزویلا میں اپنے گھر سے کھانے پینے کی چھوٹی موٹی چیزیں فروخت کرتی ہیں۔ (© Matias Delacroix/AP Images)

بچے بھی اِن حالات سے اتنے ہی متاثر ہوئے ہیں جتنے کہ بڑے متاثر ہوئے ہیں۔ سکول جانے والے بچوں کی تعداد 12.7 ملین سے کم ہوکر 11 ملین رہ گئی ہے۔ صرف 60 فیصد بچے باقاعدگی سے سکول جاتے ہیں۔

جب بچوں سے پوچھا گیا کہ وہ پابندی سے سکول کیوں نہیں جاتے تو انہوں نے کہا کہ ایسا کھانے، پانی، بجلی، اور ٹرانسپورٹیشن  کی کمی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

وینزویلا کے قانونی عبوری صدر، خوان گوائڈو نے کہا، “ای این سی او وی آئی کے نتائج وینیزویلا کے عوام کی افسوس ناک حقیقت کے عکاس ہیں۔ وہ محض اتفاقیہ تعداد نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ خالی خولی ہندسے ہیں۔ (حقیقت میں) یہ اُن حالات کی عکاسی ہے جن سے وینیز ویلا کے شہری اس وقت گزر رہے ہیں۔”

اس سے پہلے یہ آرٹیکل ایک مختلف شکل میں اس سے پہلے ستمبر 24 2020 کو شائع ہو چکا ہے۔