
شدید غربت، غذائیت کی کمی اور تشدد۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر مشیل باچیلے کے مطابق وینیز ویلا کی عورتیں اور بچے، مادورو کی سابقہ حکومت کی وجہ سے مسلسل مصائب جھیل رہے ہیں۔
18 دسمبر کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے سامنے زبانی طور پر تازہ صورت حال کے بارے میں بات کرتے ہوئے باچیلے نے کہا، “لڑکیوں، لڑکوں، اور نوجوانوں کو پریشان کن خطرات لاحق ہیں۔ انتہائی اونچے درجے کی افراط زر کی وجہ سے غیر ملکی کرنسیوں تک رسائی رکھنے والا آبادی کا ایک قلیل حصہ کھانے پینے کی بہت زیادہ مہنگی اشیاء پابندی سے خرید سکتا ہے۔”
وینیز ویلا میں کم از کم اجرت سے پرچون کی دکانوں پر اشیائے خورد و نوش کی مجموعی قیمتوں کا 3.5 فیصد ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عورتوں اور بچوں میں غذائیت کی کمی عام ہو چکی ہے۔
باچیلے نے حاملہ عورتوں اور بچوں کی صحت کے بارے میں ایک اور حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیا جس کا تعلق وینیز ویلا کی 24 میں سے 19 ریاستوں سے ہے۔ اس رپورٹ میں 48.5 فیصد حاملہ عورتیں غذائیت کی کمی جب کہ 32.6 نوجوان خوراک کی کمی کی وجہ سے جسمانی نقائص کا شکار ہیں۔
صحت کی سہولتوں تک رسائی کی خوفناک کمی اور اشیائے خورد و نوش کی مسلسل قلتوں کے نتیجے میں خاندانوں کے خاندان کسی اور جگہ زندگی گزارنے کے لیے دوسرے ملکوں کو جانا جاری رکھیں گے۔
باچیلے نے کہا، “وینیز ویلا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں اور ہجرت کرنے والوں کے رابطہ کاری کے پلیٹ فارم کے اندازے کے مطابق وینیز ویلا کے 47 لاکھ شہری ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ اور اس کے اندازوں کے مطابق سال 2020 تک یہ تعداد 65 لاکھ تک جا پہنچے گی۔”
پورے کا پورا خاندان بالعموم ملک چھوڑنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ لہذا خاندان کے چند ایک لوگ ہجرت کر جاتے ہیں اور باقی ماندہ پیچھے رکنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

فلم ساز مارگاریتا کیڈیناس نے اس جدوجہد کو 2016 کی “وینیز ویلا کی افراتفری کی عورتیں” کے نام سے بنائی جانے والی اپنی فلم میں دکھایا ہے۔ حال ہی میں یہ فلم واشنگٹن میں امریکی ریاستوں کی تنظیم میں دکھائی گئی۔
کیڈیناس کہتی ہیں، “اس وجہ سے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ خاندان اکٹھا نہیں رہ سکتا۔ خاندان ملک کی بنیاد ہے اور اس وقت خاندان مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے۔”
کیڈیناس نے بدمعاشوں اور عدالتوں سے ماورا نیم فوجی گروہوں کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کو برداشت کرنے والی پانچ عورتوں کی زندگیوں کو فلمایا ہے۔ اِن عورتوں کے پاس نہ کھانے پینے کو کچھ تھا اور نہ ہی دوائیں تھیں۔
کیڈیناس نے بتایا کہ جب انہوں نے یہ فلم بنائی اس وقت کے مقابلے میں وینیز ویلا میں آج صورت حال بدتر ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
کیڈیناس گزشتہ 30 برس سے پیرس میں مقیم ہیں اور وینیز ویلا میں اپنے خاندان کے ساتھ وٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں رہتی ہیں۔ وہ انہیں دن بدن بگڑتے ہوئے حالات کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں اور وہ جس طرح ممکن ہو ان کی مدد بھی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ڈاکٹری نسخوں کے مطابق اپنے بھائی کے لیے دل کی دوائیاں بھیجتی رہتی ہیں۔ اُن کے بھائی کو ہائی بلڈ پریشر ہے اور اسے پابندی سے دوا کھانا ہوتی ہے۔
اِن مصائب کے ہوتے ہوئے، مستقبل کی امیدیں عبوری صدر خوان گوائیڈو کی جائز حکومت کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
کیڈیناس نے بتایا، “مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا واسطہ ایک آمریت سے ہے اور انہیں عوام کی کوئی پرواہ نہیں۔ جب تک ہم حکومت تبدیل نہیں کرتے وینیز ویلا میں صورت حال اسی طرح رہے گی۔”