5 جنوری 2020 کو وینیز ویلا کی قومی اسمبلی کے [اراکین] 2020ء کے لیے اپنے صدر کے [انتخاب] کے لیے ووٹ ڈالیں گے — بشرطیکہ اُن کو اپنا جمہوری حقوق استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تو۔
مادورو کی سابقہ حکومت کی حالیہ کاروائیاں تو کسی اور جانب اشارہ کر رہی ہیں۔
نکولس مادور کی جانب سے کی جانے والی گرفتاریوں، زور زبردستی اور چہار سو پھیلی بدعنوانیوں کے ہوتے ہوئے، امریکی حکومت نے قومی اسمبلی کے لیے آزادانہ اور منصفانہ انتخابی عمل کے اپنے مطالبے کو ایک بار پھر زور دار انداز سے دہرایا ہے۔

وینیز ویلا کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی ایلیئٹ ابراہامز نے 20 دسمبر کو کہا کہ مادورو “دھمکیاں دے گا، جلاوطن کرے گا، زور زبردستی کرے گا، اور رشوت دے گا۔” کہا جاتا ہے کہ حکومت ایک ووٹ کے لیے پانچ لاکھ ڈالر تک رشوت کی پیش کش کر رہی ہے۔ “یہ پہلا قدم ہے۔ قدم نمبر 2 یہ ہوگا کہ 2020ء میں آزادانہ انتخابات کو روک کر قومی اسمبلی کا کنٹرول چھیننے کی کوشش کی جائے گی۔”
گزشتہ برس سے وینیز ویلا میں جمہوریت کا آخری ادارہ یعنی قومی اسمبلی مادورو کے نشانے پر ہے کیونکہ مادورو قوم کی جمہوریت کو غیرموثر بنانا چاہتا ہے۔
ابراہامز نے کہا کہ قومی اسمبلی کے 20 فیصد اراکین کو “حراست میں لیا جا چکا ہے، زبردستی جلا وطن کر دیا گیا ہے، یا مقدمات کے خلاف حاصل اُن کے آئینی تحفظ کو منسوخ کیا جا چکا ہے۔
گزشتہ صدارتی انتخاب میں مادورو نے وینیز ویلا کے شہریوں کو ووٹ کے بدلے کھانے پینے کی اشیاء بطورِ رشوت دیں۔ وینیز ویلا کے لاکھوں شہریوں کے لیے یہ ایک پرکشش پیش کش ہے کیونکہ وہ خوراک کی قلتوں اور شدید قسم کی افراط زر کی وجہ سے زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پاوًں مار رہے ہیں۔
ابراہامز نے کہا، “مادورو حکومت آزادانہ انتخابات سے خوفزدہ ہے،” اور صرف حقیقی معنوں میں آزادانہ جمہوری عمل ہی “وینیز ویلا کو اُس ظلم و جبر اور غربت سے نکال سکتا ہے جو مادورو کے ماو و سال کا طرہ امتیاز بن چکے ہیں۔”