
یہ حکم دے کر کہ یونیورسٹیوں کو کون چلائے گا اور وہ کس طرح کام کریں گیں، سابقہ مادورو حکومت ویینزویلا کے تعلیمی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
وینیزویلا کے آئین کے مطابق، وینیزویلا کی خود مختار یونیورسٹیاں آزادانہ سوچ اور علم کے حصول کے آزاد مراکز ہیں۔ مگر حکومت کے ساتھ ملے ہوئے سپریم کورٹ کا 27 فروری سے نافذ العمل ہونے والا ایک فیصلہ خود مختار یونیورسٹیوں میں انتخابات کروانے کا طریقہ کار تبدیل کر دے گا۔
اگر یونیورسٹیاں غیر قانونی طور پر چلائی جانے والی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرتی ہیں تو مادورو کو یہ طے کرنے کا اختیارمل جائے گا کہ یونیورسٹیوں کو کون چلائے گا جس کے نتیجے میں تعلیمی اداروں پر اسے (مادورو) کو کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔ یہ ملک کے آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ آئین کی شق 109 کہتی ہے: “ریاست ایک اصول اور حیثیت کے طور پر یونیورسٹیوں کی خود مختاری کو تسلیم کرے گی … خود مختار یونیورسٹیاں اپنی حکمرانی اور اپنے کام کے ضوابط خود طے کریں گیں۔”
اس کا مطلب یہ ہے کہ مادورو وینیز ویلا کی پانچ خود مختار یونیورسٹیوں کی پوری قیادت کے لیے اپنے من پسند افراد کا انتخاب کر سکے گا۔ اسی طرح وہ خود مختار اور نجی یونیورسٹیوں کو چلانے کے طریقہ کار کو بھی کنٹرول کر سکے گا جس میں یہ بھی شامل ہوگا کہ یونیورسٹیوں میں داخلہ کس کو داخلہ دیا جائے گا اور کیا پڑھایا جائے گا۔
قومی اسمبلی کے ممبران اور دیگر جمہوری لیڈروں نے انہی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ جیسے کہ گزشتہ نسلوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم رہنما بدعنوانی کے خلاف اور تقریر کی آزادی کے حق میں آواز بلند کر تے رہے ہیں اسی طرح وینیزویلا کی خود مختار یونیورسٹیوں کے موجودہ طالب علم بھی مادورو کی اُن کی یونیورسٹیوں
پر قبضہ کرنے کی کوششوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق کراکس میں واقع وینیزویلا کی سنٹرل یونیورسٹی کے طالب علم رہنماؤں نے 27 فروری کو مذکورہ بالا فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کہ حکومت کے پاس یونیورسٹیوں کے نظام میں مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، دیگر یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے بھی اسی طرح کے احتجاجی مظاہرہ کیے۔ امریکی براعظموں کے ممالک کی تنظیم کے سیکرٹری، لوئس المیگرو نے بھی خود مختار یونیورسٹیوں کی حمایت کی۔