وینیز ویلا کے عبوری صدر خوان گوائیڈو کی قانونی حیثیت کو اگرچہ ممالک کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد تسلیم کر چکی ہے تاہم اشتراکی آمر نکولس مادورو نے تاحال اقتدار نہیں چھوڑا۔
مادورو نے قانون کی حکمرانی کو نظرانداز کیا اور اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے دھوکے پر مبنی کوششوں میں وینیز ویلا کے آئین کو پامال کیا۔ 2018 میں ملک کو ایک ایسے مضحکہ خیز ”انتخابی” عمل سے گزارا گیا جس میں فضا بھاری طور پر مادورو کے حق میں ہموار کی گئی تھی۔ ان انتخبات کے بعد قومی اسمبلی کے قانونی طور پر صدر کی حیثیت سے منتخب ہونے والے گوائیڈو نے ملک کے آئین میں دی گئی دفعات کے تحت اعلان کیا کہ وہ ملک کے عبوری صدر ہوں گے۔

مادورو کی غاصبانہ صدارت
مادورو کی بدعنوانی، غیرقانونی اقدامات اور وینیز ویلا کے عوام پر جبر کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اس کی جانب سے وینیز ویلا کے وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور قانون کی حکمرانی کو نظرانداز کیا گیا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ 2018 میں انتہائی متنازع اور کسی شک و شبہ سے بالاتر نقائص سے بھرپور غیر مدتی صدارتی انتخاب سے پہلے اٹھائے گئے وہ مخصوص اقدامات تھے جن سے وینیز ویلا کا آئین پامال ہوا اور مادورو کی فتح کے دعوے کی نفی ہوتی ہے:
مئی 2017: مادورو نے اپنے وفاداروں سے بھری ایک غیرآئینی قومی دستور ساز اسمبلی (این سی اے) بلائی اور خیال کیا جاتا ہے کہ اسے نیا آئین تیار کرنے کا کہا گیا۔ اس کے برعکس مادورو نے آئینی طور پر منتخب قومی اسمبلی (وینیز ویلا کا جائز قانون ساز ادارے) کے اختیارات غصب کر کے’ این سی اے’ کو آمرانہ طور سے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ مادورو نے عوامی ریفرنڈم منعقد کرائے بغیر این سی اے بنا کر آئین کے آرٹیکل 347 کی خلاف ورزی کی۔ این سی اے کی جانب سے قومی اسمبلی کا اختیار غصب کرنے سے آئین کے آرٹیکل 187 اور 296 کی خلاف ورزی بھی ہوئی۔
جنوری 2018: غیرقانونی قومی انتخابی کونسل نے صدارتی انتخاب کو دسمبر کے بجائے مئی میں منعقد کرانے کا اعلان کیا جو کہ آئین کے آرٹیکل 298 کی خلاف ورزی ہے کیوں کہ اس آرٹیکل کے تحت تاریخ کی تبدیلی یا اعلان کے کم از کم چھ ماہ بعد انتخابات ہونے چاہئیں۔

2018 کا انتخاب بذات خود دھوکے پر مبنی تھا۔ حزب اختلاف کے امیدواروں کی انتخابی عمل میں شرکت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ میڈیا کو صرف مادورو کے پروپیگنڈے پر مبنی اطلاعات دینے کی آزادی تھی۔ حکومت نے وینیز ویلا کے بھوکے لوگوں سے ووٹ لینے کے لیے خوراک کو بطور رشوت استعمال کیا۔ انہی وجوہات کی بنا پر بہت سے جمہوری ممالک نے اس انتخاب کے نتائج کو غیرقانونی قرار دیا۔
2018 کے انتخابات سے متعلق ان مخصوص آئینی پامالیوں کے علاوہ مادورو حکومت نے جمہوریت کے لیے مظاہرے کرنے والوں کو غیرآئینی طور پر گرفتار کیا اور انہیں حملوں کا نشانہ بنایا (آئین کے آرٹیکل 52 اور 68 کی خلاف ورزی)۔ اس نے حزب اختلاف کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا اور سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگائیں (آئین کے آرٹیکل 67 کی خلاف ورزی)۔ اس نے صحافیوں کو قید کیا اور میڈیا کے اداروں کو بند کیا (آئین کےآرٹیکل 57 اور 58 کی خلاف ورزی) اس نے قیدیوں پر تشدد کیا (آئین کے رٹیکل 60 کی خلاف ورزی)۔
گوائیڈو کی عبوری صدارت
آئین کے آرٹیکل 350 میں کہا گیا ہے کہ ”اپنی جمہوری روایت اور حریت، امن و آزادی کی جدوجہد کے ساتھ مخلوص وینیز ویلا کے عوام کوئی ایسی حکومت، قانون یا اختیار ہرگز قبول نہیں کریں گے جس سے جمہوری اقدار، اصولوں اور ضمانتوں کی خلاف ورزی ہوتی ہو یا انسانی حقوق پر زد پڑتی ہو”۔ اسی آرٹیکل کے مطابق قومی اسمبلی نے مادورو کی دوسری مدتِ صدارت کو غیرقانونی قرار دیا۔

مادورو کی جانب سے صدارتی اختیار غصب کیے جانے کے بعد وینیز ویلا میں قانونی حکومت کا وجود ختم ہوگیا۔ ان حالات میں قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 233 کو بروئے کار لائی جو کہتا ہے کہ: ”جب کوئی منتخب صدر خدمات کی انجام دہی کے لیے مستقلاً دستیاب نہ ہو … انتخابات اور نئے صدر کی حلف برداری تک قومی اسمبلی کے صدر کو جمہوریہ کی صدارت سنبھالنا ہوگی اور قومی انتخابات منعقد کرانے ہوں گے۔” مادورو کا انتخاب کالعدم قرار دیا گیا اور قومی اسمبلی کے صدر گوائیڈو کو عبوری صدر نامزد کر دیا گیا۔
23 جنوری 2019 کو گوائیڈو نے عہدے کا حلف اٹھایا اور قومی انتخابات کرا کے وینیز ویلا میں جمہوریت بحال کرنے کا وعدہ کیا۔