نکولس مادورو کی غیرقانونی حکومت کے ہاتھوں وینزویلا کے عوام جہاں بھوکے مر رہے ہیں اور ان کا نظام صحت تباہ ہو رہا ہے وہیں ایک اور چیز بھی بگڑ رہی ہے۔ یہ ہے وینزویلا کے لوگوں کی ذہنی صحت۔
جن لوگوں کو شیزو فرینیا، شدید افسردگی، مالیخولیا اور اوبسیسو کمپلسیو ڈس آرڈر (ذہنی خبط طاری ہونے کا مرض) جیسی پرانی اور شدید ذہنی بیماریاں لاحق ہوں انہیں زندہ رہنے کے لیے ڈاکٹروں اور ادویات تک لازمی رسائی درکار ہوتی ہے۔
وینزویلا کے ہسپتالوں میں ذہنی امراض کے وارڈ بحرانی حالت کا شکار ہیں۔ وینزویلا میں ادویات کی عمومی قلت کے ہوتے ہوئے ذہنی مریضوں کے لیے اپنی دوائیں حاصل کرنا قریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ قومی اسمبلی میں صحت سے متعلق رابطہ کار ڈاکٹر جولیو کاسترو کے مطابق 80 فیصد ہسپتالوں میں بینزوڈایازپین سرے ہی موجود نہیں ہے جبکہ 60 فیصد ہسپتال منہ سے لی جانے والی نفسیاتی بیماریوں کی ادویات سے محروم ہیں۔ 50 فیصد ہسپتال ایسے ہیں جہاں نہ تو انجیکشن کے ذریعے لی جانے والی بینزوڈایازپین ہے اور نہ ہی نفسیاتی بیماریوں کی ادویات موجود ہیں۔
اگر کسی ہسپتال میں مریض کی ضرورت کی دوا نہ ہو تو اس کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا تو بیرون ملک مقیم کوئی رشتہ دار اسے یہ دوا بھیج سکتا ہے یا مریض اپنی جیب سے رقم خرچ کر کے مقامی فارمیسی سے دوا خرید سکتا ہے۔ دماغی صحت کی دوا فینوباربیٹل کی ماہانہ خوراک پر قریباً 70 ڈالر خرچ ہوتے ہیں جبکہ وینزویلا میں کم از کم اجرت 5 ڈالر ماہانہ ہے۔
ڈاکٹر کاسترو کا کہنا ہے کہ ”درحقیقت ذہنی مریضوں کی حالت دن بدن بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ انہیں ہنگامی وارڈ میں داخل کیے جانے کی ضرورت ہے مگر ایسے 50 فیصد وارڈوں میں دوائیں ہی دستیاب نہیں ہیں۔ چنانچہ مریض کچھ نہیں کر سکتے اور مر جاتے ہیں۔”
بیرون ملک وینزویلا کے لوگ ذہنی صحت کے ایسے ہی مسائل پر قابو پانے کی تگ و دو کر رہے ہیں جبکہ انہیں بے گھری کی چوٹ بھی سہنا پڑ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ وینزویلا سے تعلق رکھنے والے 48 لاکھ سے زیادہ پناہ گزین ملک سے باہر موجود ہیں۔ ان میں 39 لاکھ لوگ لاطینی امریکہ، غرب الہند اور جنوبی امریکہ کے ہمسایہ ممالک میں ہیں جبکہ ان کی بیشتر تعداد کولمبیا میں مقیم ہے۔
جنوبی و وسطی امریکہ کے مہاجرین کی ذہنی صحت سے متعلق امور کے ماہر ڈاکٹر پیئرلوئجی منچینی نے واضح کیا ہے کہ بہت سی مثالیں ایسی ہیں جب وینزویلا کے لوگوں نے تن کے کپڑوں اور جیب میں پڑی رقم کے ساتھ اپنا ملک چھوڑا۔ نتیجتاً بے گھر لوگوں کے پاس عموماً اپنا طبی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا چنانچہ نئے ملک میں نئی شروعات ایک دشوار کام ہے۔

کولمبیا میں وینزویلا کے مہاجرین کے لیے خود کو ملک کے نظام صحت میں درج کروانا لازم ہے مگر بہت سے لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔ کولمبیا کی حکومت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2018 تک وینزویلا سے تعلق رکھنے والے قریباً 16 لاکھ پناہ گزینوں میں سے صرف 28069 کے پاس مہاجرت کا درجہ تھا۔ جن لوگوں کے نام درج نہیں ہوئے انہیں اپنی جیب سے سیکڑوں یا ہزاروں ڈالر ادا کرنا پڑتے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ ان تمام رکاوٹوں پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ خاص طور پرایسے لوگوں کے لیے صورتحال اور بھی سنگین ہے جنہیں شدید نوعیت کے امراض لاحق ہیں اور جنہیں باقاعدگی سے ادویات یا علاج کی ضرورت ہے۔
منچینی کے مطابق جب لوگ شدید نوعیت کی بیماری میں مبتلا کسی بے گھر شخص کو دیکھتے ہیں تو اسے کسی ہسپتال کے ہنگامی کمرے میں لے جاتے ہیں یا جیل بھیج دیتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں ایسی کسی دوسری دوسری جگہ بھیج دیا جاتا ہے۔”