مغربی مونٹانا کے دریاؤں میں، محققین “ماحولیاتی ڈی این اے” یا ای ڈی این اے کا استعمال کرتے ہوئے وائلڈ لائف کی حیاتیات میں انقلابی تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ اِس طریقہ کار کے تحت سائنسدان، تیزی سے اور کم لاگت پر ہر اس مخلوق کا سراغ لگا سکیں گے جو گزشتہ دو دنوں میں پانی میں موجود رہی ہو گی۔
آبی ماحول میں مختلف اقسام کی حیات کی موجودگی کا تعین کرنا ایک وقت لینے والا، مہنگا اور ناقص عمل رہا ہے۔ لیکن اب، صرف پانی کے ایک چھوٹے سے نمونے سے، ای ڈی این اے کا طریقہ کار ایسی جھڑی ہوئی کھال، جسمانی سیالی مادوں یا فضلے کی مدد سے آبی حیات کی موجودگی کی نشاندہی کر سکتا ہے، جو مچھلیاں، کیڑے اور جانور مسلسل پیچھے چھوڑتے رہتے ہیں۔ یہ طریقہ کار نمونے لیے جانے والے مقام سے پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت میں ایک کلومیٹر تک جنگلی حیات کا سُراغ لگا سکتا ہے۔

مونٹینا میں یو ایس فارسٹ سروس کے نیشنل جینومکس سینٹر فار وائلڈ لائف اینڈ فش کنزرویشن کے ڈائریکٹر، مائیکل کے شوارٹز کا کہنا ہے، “ماحولیاتی ڈی این اے آبی حیات کی اُس تقسیم کا پتہ لگانے میں مدد کے لیے ایک حیرت انگیز ذریعہ بن گیا ہے، جو ماضی میں ہماری نظروں سے اوجھل رہی ہے۔” انہوں نے ییل یونیورسٹی کی آن لائن پبلیکیشن، ییل انوائرنمنٹ 360 کو بتایا، “اس کی کارکردگی غیر معمولی ہے۔”
ای ڈی این اے، معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں یا نامیاتی حیات کا سراغ لگاتا ہے اور ایسی نوعِ حیات کی نشاندہی کرتا ہے جس کا تعلق اس علاقے سے نہیں ہوتا اور یہ ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
کارنیل یونیورسٹی کے ماہرِ حیاتات، ڈیوڈ لاج کا کہنا ہے، ” اگر آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ نوعِ حیات کہاں ہے تو آپ 80 پاؤنڈ کی ایشیائی کارپ جیسی مچھلی کی بھی دیکھ بھال نہیں کرسکتے، کیونکہ آپ انہیں پانی کے اندر نہیں دیکھ سکتے۔ لہذا آبی نظاموں میں ای ڈی این اے خاص طور پر کارآمد ثابت ہوتا ہے۔”
ایک نمونے پر 50 اور 150 ڈالر کے درمیان آنے والی کم لاگت والا ای ڈی این اے ٹیسٹ، روایتی نگرانی کے طریقوں پر آنے والی لاگت سے کہیں زیادہ کم ہے۔
آبی ماحولیاتی ڈی این اے اٹلس بنانے کے لئے، امریکہ کے مغربی علاقوں سے یو ایس فارسٹ سروس دریاؤں اور ندیوں سے ڈی این اے جمع کر رہی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی میں مزید بہتری آنے کیساتھ، اس کو سمندری ماحول میں بھی استعمال کیا جا سکے گا۔