ابوظہبی کے اپنے 4 فروری کے دورے کے دوران پوپ فرانسس نے ایک سوال پوچھا، “مختصراً، علیحدگی کی رکاوٹیں بننے کی بجائے مذاہب کس طرح بھائی چارے کے ذرائع بن سکتے ہیں؟”
پوپ کے جزیرہ نمائے عرب کے پہلے تاریخی دورے کے موقع پر پوپ کا پیغام امن اور تمام مذاہب کے لوگوں کے اتحاد کا تھا۔ متحدہ عرب امارات روانگی سے قبل انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا، “میں اس ملک کے دورے پر اکٹھا مل کر مکالمے کا ایک صفحہ لکھنے اور امن کی راہوں پر سفر کرنے کی غرض سے ایک بھائی کی حیثیت سے جا رہا ہوں۔”
امریکی آئین کے تحت دی گئی مذہبی آزادی امریکی معاشرے کو ایک ایسا معاشرہ بناتی ہے جس میں بہت سے مذاہب کے لوگ باہمی احترام کے ساتھ اکٹھے رہتے ہیں، کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو عبادت کرتے ہیں۔ ذیل میں دی گئی تصاویر امریکہ میں مذہبی زندگی کی جھلکیاں دکھاتی ہیں:

اگرچہ امریکہ اکثریتی طور پر ایک عیسائی ملک ہے تاہم بہت سے غیر عیسائی مذاہب کے ماننے والے آزادی سے اپنے مذہب پر عمل کرتے ہیں، جیسا کہ اوپر تصویر میں مسلمان رمضان کے اختتام پر عید کے کھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

عیسائی گرجا گھروں میں عبادات اور مقتدیوں کی ضروریات میں مطابقت پیدا کی جاتی ہے۔ اوپر تصویر میں دکھائے گئے میامی کے ‘سینٹ فرانسس دو سیلس کیتھولک گرجا گھر’ میں ہسپانوی اور انگریزی زبانوں میں عبادات کی جاتی ہیں۔

مذہبی آزادی سے تعلیم کو فائدہ ہوتا ہے۔ مذہبی گروپوں نے اعلٰی تعلیمی معیار کے سکول قائم کیے ہیں۔ اوپر اگورا، کیلی فورنیا میں ‘ایلان ریمون ڈے سکول’ میں یہودی طلباء عبرانی زبان سیکھ رہے ہیں۔

بین المذاہب کاموں میں عام فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا گرجا گھروں، مساجد اور سینا گوگ [معبدوں] کے لیے معمول کی بات ہے۔ ریاست مزوری کے شہر جوپلن میں 2011 میں آنے والے تباہ کن طوفان کے بعد کنسس سے تعلق رکھنے والے مورمن عقیدے کے ماننے والے اوپر دکھائے گئے لوگ امدادی کام کر رہے ہیں۔

‘ ایسٹر سنڈے’ جیسے تہوار مناتے ہوئے طلوع آفتاب جیسی اکثر عبادات میں قطع نظر مذہب کے، دوست اور ہمسائے شریک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف مذاہب کے ماننے والے امریکیوں کے درمیان افہام و تفہیم بڑھتی ہے۔