عالمی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کا قیام 1951 میں اس وقت عمل میں آیا جب مغربی یورپ کے ممالک دوسری جنگ عظیم میں بے خانماں ہونے والے کروڑوں لوگوں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس ادارے نے ان لوگوں کو گھر واپسی یا نئی جگہوں کا رخ کرنے میں مدد دی۔

آج یہ 169 ممالک کا بین الحکومتی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں مہاجرت کو محفوظ، باضابطہ اور باوقار بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
امریکہ اور بیلجیم نے ‘آئی او ایم’ کے قیام کی ابتدا کی اور اس وقت سے لے کر آج تک امریکہ اس کے کام میں اہم شراکت دار چلا آ رہا ہے۔ آئی او ایم ایسے اداروں کی مثال ہے جن کے ذریعے دنیا بھر میں انسانی بنیادوں پر سب سے زیادہ عطیات دینے والا ملک امریکہ، ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے۔
امریکی مذہبی خیراتی ادارے ‘سماریٹن پرس’ کے نائب صدر کین آئزکس کہتے ہیں، “مہاجرت دنیا میں بہت بڑا مسئلہ ہے۔” آئزکس ‘آئی ایم او’ کے آئندہ ڈائریکٹر کے لیے ہونے والے انتخاب میں امریکہ کے امیدوار ہیں۔ ادارے کے رکن ممالک جون میں ہونے والے انتخاب میں نئے ڈائریکٹر کا چناؤ کریں گے۔
65 سالہ آئزکس عراق، ایتھوپیا، ایریٹریا، جنوبی سوڈان، ہیٹی، کوسووو، افغانستان، پاکستان اور فلپائن سمیت درجنوں ممالک میں ذاتی طور پر ‘سماریٹن پرس’ کی امدادی کارروائیوں کی قیادت کر چکے ہیں۔
آئزکس کہتے ہیں کہ لوگوں کی خبرگیری کے ضمن میں ان کی “ذاتی ہمدردی ‘آئی ایم او’ کے حوالے سے امریکی حکومت کی فکر اور اس ادارے کے لیے جاری حمایت کی عکاس ہے۔”
دنیا کے ایک ارب مہاجرین میں سے 25 کروڑ 80 لاکھ اپنے ملکوں سے باہر رہ رہے ہیں جبکہ 75 کروڑ اندرون ملک بے گھر ہیں۔ ان میں تارکین وطن، دوسرے ممالک میں کام کرنے والے محنت کش، انتشار کے نتیجے میں مہاجرت اختیار کرنے والے لوگ اور قحط اور انسانی ساختہ تباہیوں اور قدرتی آفات سے متاثرہ افراد شامل ہیں۔
گزشتہ دہائی میں ‘آئی ایم او’ کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر کام کرنے والے، ولیم لیسی سوئنگ نے حال ہی میں لکھا، “ہم جس پیمانے پر سرحدوں کے آر پار انسانی نقل و حرکت دیکھ رہے ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔” 1956 میں ہنگری کے مہاجرین سے لے کر 1975 میں ویت نام کے “کشتی کے لوگوں” تک اور ایشیائی سونامی میں بچ رہنے والوں سے لے کر 2004 اور 2005 میں پاکستانی زلزلے کے متاثرین اور برما کے حالیہ بحران میں جان بچا کر بنگلہ دیش آنے والے لاکھوں روہنگیا لوگوں تک، ‘آئی ایم او’ نے قدرتی آفات اور ہنگامی حالات میں فوری کارروائی کی ہے۔
آئی ایم او کا مرکز جنیوا میں ہے مگر 10,500 افراد پر مشتمل اس کے عملے کا 97 فیصد دنیا بھر میں پھیلے قریباً 400 دفاتر میں کام کرتا ہے۔ سوئنگ کہتے ہیں کہ اس اعتبار سے یہ اقوام متحدہ کا سب سے بڑا ادارہ ہے جس کا عملہ “دنیا میں اس قدر وسیع طور پر پھیلا ہوا” ہے۔ پہلے یہ ادارہ علیحدہ کام کرتا تھا مگر 2016 سے یہ اقوام متحدہ کے ساتھ منسلک ہو گیا ہے۔
عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے تیزترین رفتار سے بڑھتے بحران پر قابو پانے کی خاطر اپنے عملے کی تعداد فوری طور پر بڑھا کر 600 کر دی ہے۔ ادارے کا عملے روہنگیا لوگوں کے لیے کیمپوں کا انتظام کرتا ہے اور انہیں پانی و نکاسی آب کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سے دوسری جگہ رسائی کے لیے راستے بھی بہتر بناتا ہے۔
83 سالہ سوئنگ ادارے میں دو پانچ سالہ مدتیں مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو رہے ہیں۔ وہ چار افریقی ممالک اور ہیٹی میں امریکی سفیر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔
