محنت کشوں کا دن: امریکی محنت کشوں کو خراج عقیدت کے 125 سال

امریکی ہر سال ستمبر کے مہینے میں پڑنے والے پہلے سوموار  کو محنت کشوں کا دن مناتے ہیں۔ امریکیوں کے نزدیک یہ دن موسم گرما کے اختتام کے ساتھ ساتھ  محنت کشوں کی سماجی اور معاشی کامیابیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن بھی ہوتا ہے۔

Poster advertising workers' strike (© Universal History Archive/Universal Images Group/Getty Images)
وول ورتھ سٹور کا عملہ 1937ء میں کام کرنے کے بہتر حالات کے لیے کی جانے والی ہڑتال کے دوران۔ (© Universal History Archive/Universal Images Group/Getty Images)

1894ء میں صدر گروور کلیولینڈ کی جانب سے محنت کشوں کے دن کو قومی تہوار قرار دیئے جانے کے بعد امریکی افرادی قوت مضبوط سے مضبوط تر اور زیادہ سے زیادہ متنوع ہوتی چلی آ رہی ہے۔ اس تہوار کی 125ویں سالگرہ منانے کی خاطر، ہم ماضی کے اُن تاریخی لمحات پر نظر ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے محنت کشوں کا دن جشن منانے کا دن بن گیا ہے۔

عورتوں کا اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑا ہونا

عورتیں 19ویں صدی سے لے کر آج تک محنت کشوں کے لیے اصلاحات کے حق میں ایک متحرک قوت چلی آ رہی ہیں۔ ریاست میساچوسٹس کی “دا لوویل فیمیل لیبر ریفارم ایسوسی اایشن” (محنت کش عورتوں کی اصلاحات کی لوویل ایسوسی ایشن) کا شمار امریکہ میں عورتوں کی اولین لیبر یونینوں میں ہوتا ہے۔ 1844ء میں اس ایسوسی ایشن کی ارکان عورتیں فیکٹریوں میں کام کے لمبے اوقات کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اکٹھی ہوئیں۔

اس کے فوری بعد ہمسایہ ریاست نیو ہیمپشائر ملک کی پہلی ایسی ریاست بن گئی جس نے فیکٹری کی عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے کام کا یومیہ وقت زیادہ سے زیادہ دس گھنٹے مقرر کیا۔

اس وقت امریکہ کی افرادی قوت میں سات کروڑ ساٹھ لاکھ عورتیں شامل ہیں۔ ڈاکٹروں سے لے کر انجنیئروں اور آگ بجھانے والے عملے کے اراکین سمیت عو رتیں اُتنے ہی شعبوں میں کام کر رہی ہیں جتنے شعبوں میں مرد کام کرتے ہیں۔ اس سال پہلی مرتبہ کالج سے تعلیم حاصل کرنے والی افرادی قوت میں عورتوں کی تعداد نصف سے تجاوز کر گئی۔

تنوع سے امریکہ مضبوط ہوتا ہے

متنوع افرادی قوت کی تخلیق کے سلسلے میں اٹھائے جانے والے اقدامات میں سے کچھ اولین اقدامات افریقی نژاد امریکی سرگرم محنت کش کارکن، اے فلپ رینڈولف نے اٹھائے۔ دیگر لوگوں کے ہمراہ انہوں نے 1941ء میں وفاقی حکومت اور امریکہ کی دفاعی صنعت میں افریقی نژاد امریکیوں کی قلیل تعداد کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس کے نتیجے میں صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے جس کے تحت مذکورہ شعبوں میں نسلی امتیاز ممنوع قرار پایا۔

A. Philip Randolph standing in front of statue (© AP Images)
1963ء میں واشنگٹن میں واقع لنکن کی یادگار میں مزدور راہنما، اے فلپ اینڈولف ابراہام لنکن کے مجسمے کے سامنے۔ (© AP Images)

امریکی افرادی قوت جتنی متنوع آج ہے اتنی متنوع پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس کی جزوی وجہ محنت کشوں کو حاصل  بے شمار تحفظات اور محنت کشوں کے بے شمار قوانین ہیں۔ آنے والے دس برسوں میں ایشیائی نژاد امریکی اور ہسپانوی محنت کشوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔

اس ساری محنت کا صلہ مل رہا ہے۔ امریکہ میں گزشتہ 50 سال میں پہلی مرتبہ بے روزگاری کی شرح کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا، “مثبت نمو، بے روزگاری کی پائیدار کم شرح، اور حقیقی اجرتوں میں اضافے کی وجہ سے معیشت پنپ رہی ہے۔” چونکہ امریکی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معشیت ہے، اس لیے مضبوط امریکی معیشت کا مطلب مضبوط عالمی معیشتیں ہے جس کی وجہ سے چھوٹے بڑے سب ممالک کا فائدہ ہوتا ہے۔