محکمہ خارجہ میں خواتین کے لیے پہل کار خاتون: پیٹی مورٹن

کیموفلاج وردی پہنے مسکراتی ہوئی ایک عورت گاڑی کے سامنے کھڑی ہے (Collection of the National Museum of American Diplomacy)
سائیگون میں امریکی میرین فوجیوں نے نے مورٹن کو احتراماً پہننے کے لیے تب کیموفلاج وردی دی جب وہ انہیں نشانہ بازی کے لیے فائرنگ رینج پر لے کر گئے۔ (Collection of the National Museum of American Diplomacy)

پیٹریشیا “پیٹی” این مورٹن نے امریکی محکمہ خارجہ میں عورتوں کی شمولیت میں حائل رکاوٹوں کو سفارت کاری کے نام سے اپنے استقلال اور طاقت کے ذریعے دور کیا۔

مورٹن پہلی عورت ہیں جو 1972ء میں محکمہ خارجہ کی  سکیورٹی ایجنٹ بنیں۔ آج کل اس عہدے کو سفارتی سکیورٹی سروس کا سپیشل ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ اُن کے رفقائے کار انہیں .357 میگنم پستول کے ساتھ اُن کے شاندار نشانے اور درستگی کی وجہ سے  “پسٹل پیکنگ پیٹی” کہا کرتے تھے۔ ڈیوٹی کے دوران وہ ہمیشہ اس پستول کو اپنے پرس میں رکھا کرتی تھیں۔

برسوں بعد زبانی طور پر تاریخ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “جب میں پہلی عورت سکیورٹی افسر ہونے کے بارے میں سوچتی ہوں تو جس چیز کے بارے میں سب سے زیادہ سوچتی ہوں وہ میری یہ امید ہوتی ہے کہ میں نے اپنا کام اتنے بہترین طریقے سے کیا جتنا کہ میں کر سکتی تھی، اور یہ کہ میرے بعد آنے والوں کے لیے میرا یہ کام آسانیاں پیدا کرے گا۔”

مورٹن کو امریکی فارن سروس میں 1965 شامل کیا گیا۔ گو کہ چار دہائیاں قبل فارن سروس میں پہلی عورت شامل ہو چکی تھی، تاہم مورٹن ایک ایسے ادارے میں شامل ہوئیں تھیں جس میں تب زیادہ تر مرد ہوا کرتے تھے۔

سائیگون میں امریکی سفارت خانے میں تعیناتی کے ساتھ، مورٹن پہلی خاتون ریجنل سکیورٹی افسر بن گئیں۔ وہ سفارت خانے کی عمارت کی حفاظت کرنے والے میرین فوجیوں کی نگرانی کرتی تھیں اور انہوں نے ہنگامی حالات کی صورت میں انخلا کا ہدایت نامہ تحریر کیا۔

ایک سال بعد جب اپریل 1975 میں سکوت سائیگون ہوا تو اس ہدایت نامے کی وجہ سے سفارت خانے کے عملے کی جانیں بچیں۔

 تختہ مشق اور پستول پکڑے کھڑی عورت کی تصویر (Gift of the estate of Patti Morton)
“پسٹل پیکنگ پیٹی” مورٹن ایک ماہر نشانہ باز کی حیثیت سے جانی جاتی تھیں جیسا کہ اُن کے اِس تربیتی تختہ مشق میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (Gift of the estate of Patti Morton)

اُن کے ایک مرد نگران افسر نے سوچا کہ عورتوں کے لیے حالات بہت زیادہ خطرناک ہیں اور اُس نے انخلا سے کئی ہفتے قبل مورٹن کو سفارت خانہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ مورٹن نے اس کی  مخالفت کی۔ لہذا مرد نگران افسر نے میڈیکل افسر سے مورٹن کو چلے جانے کا حکم دینے کا مطالبہ کیا۔ مورٹن ایک بار پھر ڈٹ گئیں اور اپنے طبی معائنے کا یہ اصرار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نتائج کو تحریر میں لایا جائے اور انہیں سفارت خانہ چھوڑنے کے طبی حکم نامے کے ساتھ منسلک کیا جائے۔

مورٹن نے بتایا، “میں نے طبی معائنہ اس لیے کروایا کیونکہ میں یہ نہیں چاہتی تھی کہ عورتیں ہمیشہ کے لیے لوگوں کا یہ کہنے کا بوجھ اٹھاتی پھریں، ‘دیکھا عورتیں بحرانی ہنگامی صورت حال کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔’ میں اعزاز کے ساتھ طبی معائنے میں کامیاب ہوئی۔”

اُن کے اعتراضات کے برعکس، انہیں سفارت خانہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ سفارت خانے  کی طرف سے اُن کا سامان انہیں کبھی بھی واپس نہیں کیا گیا۔

 عمارت کے سامنے چھت کے بغیر والی کار میں بیٹھی عورت (Collection of the National Museum of American Diplomacy)
مورٹن نے نیپال میں بھی خدمات انجام دیں جہاں پر وہ 1966ء میں اپنی وہ ٹرائمف کار لے کر گئیں جس کی چھت اتر جاتی تھی۔ (Collection of the National Museum of American Diplomacy)

مورٹن 1994ء تک فارن سروس میں خدمات انجام دیتی رہیں۔ انہوں نے دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا اور واشنگٹن میں سکونت اختیار کرنے سے پہلے نیپال اور ہالینڈ میں کام کیا۔

فارن سروس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر، سفیر ڈینیئل بی سمتھ نے 28 جولائی 2020 کو مورٹن اور دیگر افراد کو امریکی سفارت کاری کے ہیروز کی ورچوئل تقریب میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا، “پیٹی کو جو چیز دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اُن کی دور اندیشی کی حد ہے یعنی دوسروں کی تربیت، دوسروں کے لیے وسائل، اور دوسروں کی اِن کے تجربات سے سیکھنے میں مدد کرنے کے بارے میں سوچنا۔”

“وہ حقیقی معنوں میں ایک پہل کار تھیں۔”