
امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے 80 سے زائد طلباء 29 جون کو واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ میں جمع ہوئے۔ اُن کے جمع ہونے کا مقصد انسانی حقوق سے جڑے مسائل کے بارے میں جاننا اور یہ دیکھنا تھا کہ عامی سطح پر محکمہ خارجہ انسانی مسائل کو کیسے حل کرتا ہے۔
چارلس بلاہا کو فارن سروس آفیسر کے طور پر کام کرتے ہوئے 30 برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ محکمہ خارجہ کے جمہوریت، انسانی حقوق اور محنت کے بیورو [ڈی آر ایل] میں 2016 سے کام کر رہے ہیں۔ بلاہا نے کہا کہ “دنیا بھر میں [پھیلے امریکی] سفارت خانوں میں ایک فارن سروس آفیسر کی حیثیت سے کام کرنے کا کوئی مقرر طریقہ نہیں ہوتا۔”

بلاہا نے اپنے دفتر کی ذمہ داریوں، انفرادی ممالک کی انسانی حقوق کے طریقوں کے بارے میں رپورٹوں اور انسانی حقوق کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کے نقطہ نظر پر بات کی۔ یہ رپورٹیں اُن کا دفتر جاری کرتا ہے اور انہیں دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔
بلاہا نے محکمہ خارجہ کے مختلف بیوروز کے ڈی آر ایل کے ساتھ مل کر ہر سال یہ دستاویز تیار کرنے کی خاطر کام کرنے کے طریقوں کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ “صدر بائیڈن کہہ چکے ہیں اور وزیر خارجہ بلنکن کہہ چکے ہیں کہ انسانی حقوق کو امریکی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ہماری سیاست امریکی اقدار کا پرتو ہے۔”
یونیورسٹیوں کے یہ طلبا جاننا چاہتے تھے کہ محکمہ خارجہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا تعین کیسے کرتا ہے اور انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کس طرح کام کرتا ہے۔

پولینڈ سے تعلق رکھنے والے طالب علم ارنسٹ سیمالا کہتے ہیں کہ “اس بات سے تو میں پہلے ہی سے آگاہ تھا کہ ہر امریکی کے نزدیک انسانی حقوق ایک اہم آدرش ہے مگر جس بات کا مجھے علم نہیں تھا وہ یہ ہے کہ [انسانی حقوق] امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم سنگ بنیاد ہے۔” سیمالا چین کی یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے کے بعد امریکہ سے پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “بہت ساری رپورٹیں پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ امریکہ انسانی حقوق کے لیے دنیا میں بہت کام کرتا ہے اور یہ کہ امریکہ عالمی صورت حال کا مطالعہ انتہائی یکسوئی کے ساتھ کرتا ہے۔”
ڈوروتھیا ژوربورچ ہنگری سے تعلق رکھتی ہیں اور آج کل لندن میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ وہ بھی سیمالا کی رائے سے اتفاق کرتی ہیں۔
ژوربورچ نے اِس تقریب کے بعد کہا کہ “جیسا کہ [بلاہا] نے بتایا چونکہ انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں کا تعین کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا اور وہ اتنی واضح نہیں ہوتیں، لہذا انسانی مداخلت کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔”